غزہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر مسلط کی گئی اجتماعی بھوک، قحط اور محاصرے کے نتیجے میں جمعرات کے روز غزہ سے تعلق رکھنے والے دو نوجوان موت کے منہ میں چلے گئے، جن کی المناک شہادت نے اس انسانی المیے کی شدت کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔
مقامی خاندانی ذرائع نے بتایا کہ 27 سالہ کرم خالد الجمل جو غزہ شہر کا رہائشی تھا بھوک اور غذائی قلت کے باعث دم توڑ گیا۔ وہ پہلے سے مختلف جسمانی بیماریوں میں مبتلا تھا اور خصوصی غذائی نگہداشت کا محتاج تھا، جو کئی مہینوں سے دستیاب نہ تھی۔ مسلسل غذائی قلت اور بنیادی ضروریات سے محرومی نے اس کی حالت اس قدر نازک کر دی کہ وہ زندگی کی جنگ ہار گیا۔
اسی روز خانیونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس سے بھی ایک اور دلخراش اطلاع موصول ہوئی، جہاں 27 سالہ نوجوان عادل فوزی ماضی بھی مسلسل بھوک، کمزوری اور بیماری کا شکار رہنے کے بعد جامِ شہادت نوش کر گیا۔ وہ طویل عرصے سے علاج، خوراک اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم تھا۔
شہید عادل ماضی کی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ شدید غذائی قلت اور مسلسل بیماری کی اذیت سے ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ اس کا جسم زندگی کی چمک سے خالی، آنکھیں بجھی ہوئی اور چہرہ بھوک کا نوحہ پڑھتا نظر آتا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت نے گزشتہ روز بدھ کو واضح الفاظ میں کہا تھا کہ “جو عناصر قحط کے وجود سے انکار کر رہے ہیں، ان کے جھوٹ کو ایمرجنسی وارڈز میں آنے والے مریضوں اور بڑھتی ہوئی اموات خود بے نقاب کر رہی ہیں”۔
حالیہ دنوں میں غذائی قلت کے باعث شہادتوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ درجنوں بچوں کے جسم محض ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہیں۔ غزہ کی گلیوں میں بھوک سے نڈھال ہو کر بے ہوش ہونے والے شہریوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
عالمی ادارہ برائے خوراک کی مرحلہ وار رپورٹ، جو عالمی سطح پر قحط کی نگرانی کرتا ہے، نے بتایا ہے کہ غزہ کے بیشتر علاقوں میں خوراک کی قلت اب باقاعدہ قحط میں تبدیل ہو چکی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام دستیاب شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ غزہ میں بھوک، غذائی قلت اور بیماری کے پھیلاؤ کے باعث اموات کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
منگل کے روز جاری کردہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ نے بھی ہولناک انکشاف کیا کہ غزہ کے 100 فیصد شہری شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔ قابض اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی نسل کش جنگ، ظالمانہ محاصرہ اور امدادی سامان کی دانستہ بندش کے باعث ہر فلسطینی کی زندگی موت کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جنگ کے آغاز سے اب تک بھوک اور غذائی قلت کے باعث 147 فلسطینی جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں، جن میں 88 معصوم بچے شامل ہیں۔
یہ صرف اعداد نہیں، بلکہ ہر ایک عدد ایک کہانی ہے، ایک برباد شدہ خواب، ایک تڑپتی ماں کی آغوش، ایک ویران گود، ایک ایسی دنیا کا نوحہ جس نے انسانیت کو فقط نعروں تک محدود کر دیا۔