واشنگٹن (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) دو سابق امریکی عہدیداروں نے ٹرمپ انتظامیہ کو خبردار کیا کہ وہ اسرائیل کو غزہ کی ناکہ بندی جاری رکھنے کی اجازت دے کر فلسطینی عوام کے مصائب کو سرکاری پالیسی بنائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حماس کو جنگ کا ذمہ دار ٹھہرانا غزہ میں بیس لاکھ فلسطینیوں کی منظم بھوک کا جواز نہیں بنتا۔
سینٹر فار امریکن پروگریس کے ساتھی اینڈریو ملر اور بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ایک محقق فلپ گورڈن نے امریکی میگزین فارن پالیسی کے شائع کردہ ایک مضمون میں زور دے کر کہا ہے کہ “اسرائیل اب نومبر 2023ء میں پچھلی انتظامیہ کے طے کردہ تمام پیرامیٹرز کی خلاف ورزی کے راستے پر ہے’۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ یہ جاری خلاف ورزیاں ٹرمپ کی طرف سے کسی اعتراض کے بغیر ایک “اخلاقی ناکامی ہے جو فلسطینیوں کے مصائب میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرنے کے متراد ہے۔
سابق امریکی حکام کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت ،اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی کے ایک بیان میں واضح ہوئی، جس نے عالمی ادارہ صحت کی طرف سے اسرائیل پر غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا، “دباؤ صرف حماس پر لگایا جانا چاہیے”۔
سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں خدمات انجام دینے والے دونوں عہدیداوں نے نشاندہی کی کہ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کو جنگ کے لیے مورد الزام ٹھہرانا تقریباً 10 لاکھ بچوں سمیت 20 لاکھ سے زائد شہریوں کی بھوک سے مارنے کا جواز نہیں بنتا، بلکہ یہ حقیقت میں اجتماعی سزا ہے۔