غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی مظلوم سرزمین پر ظلم و جبر کی نئی داستان رقم کرنے کے لیے شروع کی جانے والی قابض اسرائیل کی خونی مہم “عربات گیدعون” اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ غاصب دشمن نے فلسطینی عوام کی آواز کو خاموش کرانے، ان کے حوصلے توڑنے اور ان کی مزاحمت کو کچلنے کی جو گھناونی سازش رچائی تھی، وہ خود اسی سازش میں بُری طرح الجھ چکا ہے۔ اب خود صہیونی فوج کے اعلیٰ افسران یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ میں پھنس چکے ہیں، جہاں فتح کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر کی جانب سے “غزہ پر جنگ کے مستقبل کے لیے واضح اسٹریٹیجک سمت” کا مطالبہ اس تلخ حقیقت کا اعتراف ہے کہ قابض ریاست کا عسکری نظام بکھر رہا ہے اور فوجی مشن اپنے اعلان کردہ اہداف سے کوسوں دور ہے۔
“عربات گیدعون” کی صورت میں قابض اسرائیل نے غزہ پر موت مسلط کی، فلسطینی بستیاں کھنڈرات میں بدل دیں، معصوم بچوں، خواتین اور بزرگوں کو خون میں نہلا دیا۔ لیکن نہ حماس کمزور ہوئی، نہ مزاحمت جھکی، اور نہ فلسطینی عوام نے اپنی آزادی کے مطالبے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کا سوچا۔
ایال زامیر نے صہیونی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ جنگ کے مستقبل پر کوئی واضح فیصلہ کرے، کیونکہ سیاسی قیادت کی مسلسل خاموشی اور تذبذب کی وجہ سے فوج کی کارکردگی مفلوج ہو چکی ہے۔ فوجی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق زامیر کا کہنا ہے کہ فوج کو واضح احکامات نہیں دیے جا رہے، جس سے میدان جنگ میں انتشار اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔
غزہ میں قابض فوج کی پسپائی
میدان جنگ میں قابض فوج کی حالت یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے شمالی غزہ سے 98ویں بریگیڈ کو چپکے سے واپس بلایا گیا، جسے اسرائیلی میڈیا نے “عربات گیدعون” کی زمینی ناکامی کا واضح اشارہ قرار دیا۔ اس وقت صہیونی فوج کی صرف دو بریگیڈ شمالی غزہ اور خانیونس میں لڑائی میں مصروف ہیں، جبکہ دیگر دو دفاعی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں۔
زامیر نے ہر محاذ پر 30 فیصد ریزرو فوج واپس بلانے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوج اندر سے ٹوٹ رہی ہے اور اس میں لڑنے کی سکت باقی نہیں رہی۔
قابض اسرائیل اب اپنے سیاسی اہداف کے لیے ایک نام نہاد قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کی طرف بڑھنا چاہتا ہے، لیکن میدان جنگ میں اسے ایسی شکست ہوئی ہے کہ اب وہ اپنی شرائط منوانے کے قابل نہیں رہا۔ فوجی کمانڈ کی سطح پر بار بار اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ کسی بھی ممکنہ معاہدے میں غزہ کی سرحدوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھنا ضروری ہوگا، ورنہ مزاحمت اسے پھر چُور چُور کر دے گی۔
شکست خوردہ فوج، خودکشی کرتے جوان
“عربات گیدعون” وہ فوجی مہم تھی جس کا دعویٰ تھا کہ وہ حماس کو زیر کر لے گی۔ مگر نتائج انتہائی بھیانک نکلے۔ صرف جون اور جولائی کے مہینوں میں کم از کم 40 صہیونی فوجی ہلاک ہوگئے۔ اس کے علاوہ سات فوجیوں نے خودکشی کر لی، جو اس قتل عام اور انسانیت سوز نسل کشی کا حصہ بننے کے بعد ذہنی طور پر ٹوٹ چکے تھے۔
یہ جنگ اب صرف فلسطینیوں کے خلاف نہیں بلکہ خود قابض فوج کے خلاف ایک عذاب بن چکی ہے۔ یونٹس جو کبھی خصوصی آپریشنز کے لیے مخصوص تھیں، اب عام پیدل فوج کی طرح لڑ رہی ہیں، جس سے اندرونی بغاوت اور بیزاری بڑھتی جا رہی ہے۔
فوجی ماہر بریگیڈیئر جنرل (ر) الیاس حنّا نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی پوری فوجی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ اس نے شکست کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ 98ویں بریگیڈ شدید تھکن اور جانی نقصان کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔
قبضہ یا مکمل پسپائی؟ دونوں اسرائیل کے لیے خسارے کا سودا
ایال زامیر کے بقول اب دو راستے بچے ہیں یا تو غزہ کو مکمل طور پر فتح کیا جائے، جس میں برسوں لگ سکتے ہیں، یا غزہ کا محاصرہ کر کے حماس کو مسلسل کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں راستے خود قابض اسرائیل کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔
صہیونی حکومت کے انتہا پسند وزراء جیسے بزلئیل سموٹریچ اور وزیرِ ورثہ کی جانب سے “غزہ پر مکمل قبضے” کے بیانات محض سیاسی نعرے ہیں۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق ایسے کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتے اور جو بھی فوجی دستہ غزہ سے نکالا جاتا ہے، اسے دوبارہ تیار کرنے میں کم از کم چار ماہ لگتے ہیں۔
فوجی کمانڈرز خود اس وقت شدید دباؤ میں ہیں۔ جنوبی کمانڈر اور “گیواتی” بریگیڈ کے سربراہ دونوں نے جنگ بند کرنے کی حمایت کی ہے۔ خود زامیر بھی مان چکے ہیں کہ “عربات گیدعون” کے اہداف مکمل ہو چکے، یعنی ناکام ہو چکے۔
فلسطینی مزاحمت سر بلند، اسرائیلی پالیسی بے سمت
سیاسی تجزیہ نگار احمد عطاونہ کے مطابق تین ماہ سے زیادہ جاری رہنے والی اس وحشیانہ کارروائی میں قابض اسرائیل نے نہ صرف انسانی جانوں کا قتل عام کیا بلکہ خود بھی سیاسی بندگلی میں جا پھنسا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں قتل عام اور تباہی پھیلانے کے باوجود، حماس ابھی بھی میدان میں موجود ہے، قیدی اب بھی مزاحمت کے پاس ہیں، اور غاصب فوج کے لیے میدان خالی کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔
اسرائیل اب نہ حماس کو قبول کرتا ہے، نہ فلسطینی اتھارٹی کو واپس لا سکا ہے، نہ ہی کسی نئے فلسطینی فریق کو پیدا کر سکا ہے۔ “محفوظ زون” یا “انسانی شہر” جیسے خواب محض فریب بن کر رہ گئے ہیں۔
عالمی برادری بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے، کیونکہ امریکہ کا کھلا تعاون، اور قابض ریاست کی شدت پسند حکومت ہر امن کی راہ میں دیوار بن چکی ہے۔
فلسطینی عوام اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر، اپنے گھروں کی چھتیں گنوا کر، اپنی لاشیں اٹھا کر دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ وہ سر جھکانے والے نہیں۔ غزہ، آج بھی مزاحمت کا قلعہ ہے۔ اور قابض اسرائیل، چاہے جتنے بھی ہتھیار آزما لے، اس قلعے کو سر کرنے میں ناکام رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔