غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن)فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی طرف سے حماس کو ختم کرنے کے نعرے سے مسلط کی گئی خوفناک جارحیت پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی جنگ روکنے میں ناکام ہے۔ دوسری طرف غزہ کے جنگ اور محاصرے سے تباہ حال فلسطینی بچے، بزرگ، خواتین اور نہتے شہریوں کی مصیبتوں میں ہرآنے والے دن میں اضافہ ہو رہا ہے۔
غزہ جنگ کی تباہ کاریوں کی سوشل میڈیا پر بھرمار میں ایک بزرگ خاتون فلسطینی کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے۔
اپنے دکھ اور صدمے کو بیان کرتے ہوئے اس کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے مگر وہ دنیا کے مردہ ضمر پر اپنے بہتے آنسوؤں اور سسکیوں سے دستک دیتے ہوئے دہائی دے رہی ہے۔
بزرگ جنگ زدہ خاتون کہتی ہیں کہ ’”یہ جنگ ہم پرمسلط کی سیاہ ترین جارحیت ہے۔ہمارے سروں پر بم گرائے جا رہے ہیں اور زمین سردی سے یخ بستہ ہے۔ ہمارے اوپر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ ہم جائیں تو جائیں کہاں۔ جو اسرائیلی بمباری سے بچ گیا وہ سردی سے مر رہا ہے۔ ہمارے لیے کوئی جائے پناہ نہیں، ہم ایک سکول میں بیٹھے ہیں،شدید سردی سے مر رہے ہیں، بیمار ہیں، سڑک پر سونے پر مجبور ہیں، ہم ملبے کے ڈھیروں پر ہیں، ریت اور پتھروں پر کیسے سوسکتے ہیں؟”۔
یہ الفاظ بولتے ہوئے غزہ کی یہ بوڑھی اماں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتی اور پھوٹ پھوڑ کر رو دیتی ہے۔ یہ غزہ کے عوام کی مصیبتوں کی ایک زندہ مثال ہے۔
بہتی آنکھوں سے دنیا کے سامنے اپنے درد کی فریا
خاتون نے ایک ویڈیو کلپ میں بتایا کہ وہ سردیوں میں نقل مکانی کی وجہ سے بہت تکلیف میں ہیں۔ بات کرتے ہوئے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ سوشل میڈیا پر اس خاتون کے ساتھ گہری ہمدردی اور عالمی ضمیر پر تنقید کی جا رہی ہے۔
فلسطینی کوفیہ پہنے خاتون نے مزید کہا کہ “بے گھر ہونے والوں کی صورتحال کسی کے لیے خوش کن نہیں ہے۔ لوگ سردی سے مر رہے ہیں‘‘۔
اس نے بتایا کہ میں نے بہت سی جنگیں دیکھی ہیں لیکن اسے محصور علاقوں پراسرائیلی بمباری کے حوالے سے سب سے بدترین جنگ سمجھا جاتا ہے۔
غزہ کی پٹی پر 74ویں روز بھی اسرائیلی حملے جاری ہیں، شمال، جنوب اور مرکز میں بھی فلسطینیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کی آوازیں اسرائیلی بمباری کی گھن گرج میں دب رہی ہیں۔
چند روز قبل ’اونروا‘ نے غزہ کی صورتحال کو زمین پر جہنم قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں بے گھر لوگ اب سڑکوں پر ہیں، اور ان کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے‘‘۔