لندن(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے سرگرم بین الاقوامی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ اتوار کے روز اس نے اپنے جہازوں پر ڈرون طیاروں کی بار بار پرواز ریکارڈ کی ہے، جن میں سے بعض نے جہازوں کے قریب آ کر خطرناک حد تک پرواز کی۔
کمیٹی نے اپنی فیس بک پوسٹ میں کہا کہ ڈرونز کی اس غیر معمولی سرگرمی نے کارکنان میں سخت تشویش پیدا کر دی ہے۔
کمیٹی کے سربراہ زاہر البیراوی نے گذشتہ روز بتایا تھا کہ “اسطول الصمود العالمی” جس میں سیکڑوں کارکنان اور رضاکار شامل ہیں اور جو محاصرہ توڑنے والی جہازوں کی 38 ویں کاوش ہے، اجتماعی طور پر غزہ کی سمت روانہ ہو چکا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا سمندری کارواں ہے۔
البیراوی نے وضاحت کی کہ “44 جہاز اٹلی کی بندرگاہوں سے روانہ ہو چکے ہیں جبکہ مزید 6 جہاز یونان کی بندرگاہوں سے ان میں شامل ہونے کی تیاری میں ہیں۔ اس قافلے کی براہِ راست منزل غزہ ہے۔”
ان کے مطابق یہ سفر تقریباً ایک ہفتے میں غزہ کے ساحل تک پہنچے گا۔ وہ غزہ جس پر قابض اسرائیل نے پچھلے 17 برسوں سے گھٹن زدہ محاصرہ مسلط کر رکھا ہے۔
یہ “گلوبل الصمود فلوٹیلا” جمعہ کے روز صقلیہ کے ساحل سے روانہ ہوا، ایسے وقت میں جب غزہ دو سال سے قابض اسرائیل اور اس کے امریکی و مغربی اتحادیوں کے وحشیانہ حملوں کا شکار ہے جس کے نتیجے میں اب تک 2 لاکھ 31 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔
گذشتہ ہفتے اس کارواں کے سب سے بڑے جہاز کو تیونس کے ساحل پر ایک ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے باعث جہاز میں آگ بھڑک اٹھی۔
موسمی رکاوٹوں کے باعث اس قافلے کی غزہ کے لیے روانگی کئی بار مؤخر کی گئی۔ “اسطول الصمود العالمی” تقریباً 50 جہازوں پر مشتمل ہے جن میں 23 جہاز مغرب عرب ممالک سے اور 22 غیر ملکی جہاز شامل ہیں۔ اس میں یورپی ممالک، لاطینی امریکہ، امریکہ، پاکستان، بھارت اور ملیشیا سے بھی کارکنان شریک ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جہاز اجتماعی طور پر غزہ کی سمت روانہ ہوئے ہیں، جہاں 24 لاکھ سے زائد فلسطینی شدید ترین محاصرہ اور بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ قابض اسرائیلی فوج ماضی میں بھی ایسے جہازوں کو روک کر ان پر قبضہ کر چکی ہے اور ان پر سوار کارکنان کو جبراً بے دخل کر دیا تھا۔
مزید یہ کہ 2 مارچ سے قابض اسرائیل نے غزہ کے تمام معابر بند کر دیے ہیں جس سے انسانی المیہ شدت اختیار کر گیا اور قحط نے ہزاروں زندگیاں نگل لی ہیں۔ سرحدوں پر امداد سے لدی ہزاروں ٹرک کھڑے ہیں جنہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ جو تھوڑی بہت امداد داخل کی جاتی ہے وہ بھی انتہائی ناکافی ہے اور اکثر اسے صہیونی سرپرستی میں سرگرم گینگز لوٹ لیتے ہیں جیسا کہ غزہ کی حکومتی میڈیا آفس نے بتایا۔
اسطول الصمود کے شریک کارکنان اس سفر کے دوران قابض اسرائیل کی جانب سے ممکنہ رکاوٹوں اور حملوں کا اندازہ لگا رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ کوئی خطرہ یا دھمکی انہیں اپنی منزل سے پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ ان کے مطابق غزہ کا محاصرہ اب صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ انسانی ضمیر کی عالمی جنگ ہے جس میں پوری دنیا کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
قابض اسرائیلی فوج 7 اکتوبر سنہ2023ء سے امریکہ اور مغرب کی پشت پناہی کے ساتھ غزہ پر کھلی نسل کشی کی جنگ مسلط کیے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں اب تک 2 لاکھ 31 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہوئے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ قحط کے باعث 432 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جن میں 146 معصوم بچے شامل ہیں۔