مقبوضہ بیت المقدس (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل کی سرپرستی میں بیت المقدس شہر میں ایک بار پھر نفرت، اشتعال اور صہیونی درندگی کا بازار گرم رہا۔ ہزاروں انتہا پسند صہیونیوں نے شہر کے تاریخی دروازے باب العامود پر دھاوا بول کر نام نہاد “پرچم مارچ” نکالا جس کا مقصد نہ صرف فلسطینیوں کو اشتعال دلانا ہے بلکہ ان کی موجودگی کو مٹانے کا کھلا اعلان بھی ہے۔
پرم بردار مارچ کے دوران صہیونی جھنڈے لہرائے گئے، عربوں اور اسلام کے خلاف نعرے بازی کی گئی، نسل پرستی پر مبنی گانے گائے گئے اور ناچتے جھومتے مظاہرین نے مسلمانوں کے خلاف شدید اشتعال انگیز زبان استعمال کی۔ یہ مارچ مسجد اقصیٰ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع تاریخی مقام دیوار البراق تک پہنچا، جسے یہودی “دیوارِ گریہ” کہتے ہیں۔
اس نفرت انگیز مظاہرے میں بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کے دو متعصب وزراء ایتمار بن گویر اور بتسلئیل سموتریچ بھی شریک تھے۔ ان کے ہمراہ صہیونی رکن پارلیمنٹ یتسحاق فاسرلاوف بھی موجود تھا، جس نے باب العامود کے مقام پر صہیونی مذہبی رسومات ادا کیں اور رقص کرتے ہوئے مسلمانوں اور فلسطینیوں کے خلاف کھلے عام زہر اگلا۔
ان کے نعروں میں “سن 67 میں القدس، 2025ء میں غزہ ہماری مٹھی میں” جیسے الفاظ شامل تھے۔ وہ چیخ چیخ کر کہتے رہے “غزہ کو زمین بوس کر دو”، “شعفاط کو آگ لگا دو”، ناعوذ باللہ “محمد مردہ باد ہ”۔ یہ جملے اس شدت پسند سوچ کی مکمل عکاسی کرتے ہیں جو قابض اسرائیل کی حکومت کے اعلیٰ ترین حلقوں تک سرایت کر چکی ہے۔
قابض اسرائیلی پولیس نے اس موقع پر پورے القدس میں سکیورٹی کی آڑ میں فوج اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کررکھی تھی۔ خاص طور پر پرانے شہر کے اطراف اور مسلم اکثریتی محلوں میں فوج کی بھاری نفری تعینات تھی تاکہ انتہا پسند صہیونیوں کو کھلی چھوٹ دی جا سکے۔ ہر سال یہ مارچ مغربی القدس سے شروع ہو کر پرانے شہر تک پہنچتا ہے اور اسلامی محلے سے گذرتا ہے، جہاں بیشتر آبادی فلسطینیوں کی ہے۔
یہ پرچم بردار مارچ ایک ایسی سیاسی و مذہبی اشتعال انگیزی ہے، جو قابض اسرائیل کی سرکاری سرپرستی میں فلسطینیوں کی مذہبی آزادی، تشخص اور وجود کے خلاف اعلانِ جنگ بن چکی ہے۔ مسجد اقصیٰ کے سائے میں رقص کرتی یہ نفرت صرف فلسطینیوں پر ہی نہیں، بلکہ پوری انسانیت پر حملہ ہے۔