واشنگٹن (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) امریکی محکمہ داخلہ کی معاون خصوصی مریم حسنین نے گذشتہ 7 اکتوبر سے غزہ کی پٹی کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔
حسنین نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہاکہ “آج میں محکمہ داخلہ میں بائیڈن انتظامیہ کی تقرری کے طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتی ہوں”۔ انہوں نے مزید کہاکہ “ایک مسلمان امریکی ہونے کے ناطے میں ایسی انتظامیہ کے ساتھ کام جاری نہیں رکھ سکتی جو اس کی آوازوں کو نظر انداز کرے۔ فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی نسل کشی کے لیے فنڈز جاری کر کے ان کی نسل کشی میں مدد کرے‘‘۔
مریم حسنین جن کی عمر 24 سال ہے مسلسل نویں مہینے غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی قابض ریاست کی جانب سے نسل کشی کی جنگ کے پس منظر میں بائیڈن انتظامیہ سے مستعفی ہونے والی سب سے کم عمر عہدیدار ہیں۔
حسنین نے کہا کہ وہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ میں اس یقین کے ساتھ شامل ہوئیں کہ ان کی آواز اور نقطہ نظر انصاف کے حصول میں مددگار ثابت ہوں گے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “تاہم غزہ میں “اسرائیل” کی طرف سے گذشتہ نو ماہ کی نسل کشی کے دوران اس انتظامیہ نے جمود کو برقرار رکھنے کا انتخاب کیا۔ فلسطینیوں کے لیے فوری طور پر آزادی اور انصاف کا مطالبہ کرنے والے عملے کی متنوع آوازوں کو سننے کے بجائے اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھنےکے لیے اسلحہ فراہم کیا۔
حسنین نے کہا کہ اس کی آواز سننے اور اپنی برادری کی بامعنی نمائندگی کرنے کا واحد راستہ وہاں سے نکل جانا ہے۔ امریکی صدر نے غزہ میں ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اثر و رسوخ کا استعمال نہیں کیا کہ بلکہ “نفرت کو ہوا دیتے ہوئے اس تشدد کے لیے فنڈ دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ فلسطینیوں کے حوالے سے امریکی قوم اور پوری دنیا کے سامنے جھوٹ بولا گیا۔
انہوں نے کہا کہ”جب میرا خاندان اور میں نے دوسرے مسلمانوں اور عرب امریکیوں کے ساتھ 2020 میں صدر بائیڈن کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ بائیڈن کی مہم نے انصاف کا وعدہ کیا تھا”۔
مریم نے مزید کہا کہ “انتظامیہ پر یہ وعدہ اور ایمان ان کی پالیسیوں کے ذریعے تباہ ہو گیا۔عربوں اور مسلمانوں سے ان کی انسانیت چھن جانے سے یہ واضح ہو گیا کہ اس انتظامیہ میں میری کوئی جگہ نہیں ہے”۔