تہران (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل نے آج جمعہ کی صبح ایک اور خونریز اور جارحانہ اقدام کے تحت اسلامی جمہوریہ ایران پر وحشیانہ جنگ مسلط کی ہے۔تہران اور دیگر کئی ایرانی شہروں پر فضائی حملے کیے گئے، جن میں کئی بڑے دھماکوں کی گونج سنی گئی ہے۔ یہ جارحیت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب قابض اسرائیل پہلے ہی غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی، عرب ممالک میں دراندازی اور درندگی کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ اس درندگی کو امریکہ کی پشت پناہی اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی حاصل ہے۔
آج صبح اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایران کے دارالحکومت تہران کو نشانہ بنایا، جہاں مختلف علاقوں میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ ایرانی ذرائع کے مطابق ایران ان حملوں کا سخت جواب دینے کے لیے تیاری کر رہا ہے۔
ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم نے اطلاع دی کہ تہران اور دیگر شہروں میں صبح سویرے متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ انٹرنیٹ پر گردش کرتی تصاویر میں تہران کے شمالی، مغربی اور وسطی علاقوں میں دھماکوں کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔
تہران کے بعد دیگر صوبوں جیسے کرمانشاہ اور لرستان میں بھی دھماکوں کی اطلاع ملی ہے۔
ایرانی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ قابض اسرائیل نے حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی اور دیگر کئی اعلیٰ کمانڈروں کو شہید کر دیا ہے۔
ایرنا کے مطابق شہداء میں جنرل حسین سلامی، جنرل رشید، نیوکلیئر سائنسدان ڈاکٹر مہدی طہرنجی اور فریدون عباسی شامل ہیں۔ جنرل غلام علی رشید جو خاتم الانبیاء عسکری ہیڈکوارٹر کے سربراہ تھے، بھی ان حملوں میں شہید ہو گئے۔
ایرانی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ قابض اسرائیل کے حملے میں تہران کے رہائشی علاقے میں ایک معصوم بچہ بھی شہید ہوا۔
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق نطنز شہر میں بھی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور وہاں کے ایٹمی مرکز سے دھواں اٹھتا دیکھا گیا۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق نطنز، خنداب اور خرم آباد میں بھی اسرائیلی حملے کیے گئے ہیں۔
نورت نیوز ایجنسی کے مطابق، شمال مشرقی تہران کے محلاتی علاقے میں شدید دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
الجزیرہ کے نامہ نگار عمر ہواش کے مطابق تہران بھر میں چھ بڑے دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ یہ دھماکے مشرقی تہران کے بارچیت فوجی مرکز، وزارت دفاع کے مراکز اور جنوب مغرب میں پاسداران انقلاب کی تنصیبات کے اطراف سنے گئے۔
ایرانی حکام نے امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے تمام پروازیں منسوخ کر دی ہیں اور اعلان کیا ہے کہ حالات نارمل ہونے تک فضائی آپریشن معطل رہے گا۔
ایرانی ردعمل: سخت جواب کا اعلان
ایرانی مسلح افواج کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ قابض صہیونی ریاست اور امریکہ کو اس حملے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ ایران بہت جلد اس درندگی کا سخت جواب دے گا۔
قابض اسرائیل کی پوزیشن
اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ اس نے آپریشن “ابھرتا ہوا شیر” کے تحت درجنوں طیاروں کے ذریعے ایران کے قلب پر ابتدائی ضرب لگائی ہے۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ ایران میں کی گئی ٹارگٹ کلنگ اس ضرب کا ایک بنیادی جزو ہے۔
سی این این کے مطابق، اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایک دن کے لیے نہیں، بلکہ کئی مرحلوں پر مشتمل ہوگا۔
اسرائیلی چینل 14 کے فوجی نامہ نگار نے بتایا کہ اب تک ایران کے مختلف شہروں پر 250 سے زائد فضائی حملے کیے جا چکے ہیں جن میں جنگی بحری جہاز، آبدوزیں اور طیارے شامل تھے۔
فوجی ذرائع کے مطابق، حملے کا مرکز وہ رہائشی علاقہ تھا جہاں پاسداران انقلاب کے سینئر رہنما قیام پذیر تھے۔ اسرائیلی حکومت نے اس حملے کو فوجی اور سفارتی موقع سے فائدہ اٹھا کر انجام دیا۔
اسی دوران اسرائیلی طیاروں نے مغربی ایران پر حملے کی دوسری لہر شروع کر دی، جس کے بعد تیسری لہر کی تیاری کی جا رہی ہے۔
اسرائیلی چینل 13 کے مطابق، تل ابیب آئندہ کئی روز تک جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ قابض اسرائیل کے مختلف علاقوں میں خطرے کے سائرن بجائے گئے ہیں۔
اخبار “یسرائیل ہیوم” کے مطابق، قابض اسرائیل ایرانی اعلیٰ حکام کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ چینل 12 نے اطلاع دی کہ اسرائیلی قیادت کو ممکنہ جوابی حملے سے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس آپریشن کا مقصد ایرانی جوہری خطرے کا خاتمہ ہے۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بے مثال حملے کا مقصد ایران کی جوہری تنصیبات کو ختم کرنا ہے۔
اسرائیلی وزیر جنگ یسرائیل کاٹس نے فوری طور پر ہنگامی حالت کا اعلان کیا اور فضائی حدود بند کر دی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ قابض اسرائیل عنقریب میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق، سیکورٹی کابینہ نے ایران پر حملے کی متفقہ منظوری دی۔ کابینہ کے وزراء نے خفیہ معلومات کے تحفظ کے لیے ایک خاص معاہدے پر بھی دستخط کیے۔
امریکہ کا موقف
اسرائیلی ریڈیو کے مطابق، یہ سارا حملہ امریکہ کی مکمل ہم آہنگی سے کیا گیا۔ تاہم واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دعویٰ کیا کہ یہ اسرائیل کا یکطرفہ اقدام ہے اور امریکہ اس حملے میں شریک نہیں۔
روبیو نے کہا کہ امریکہ کی ترجیح مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی اہلکاروں کی حفاظت ہے، اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت اس حوالے سے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے۔
دو امریکی حکام نے الجزیرہ کو بتایا کہ امریکہ اس حملے میں اسرائیل کی مدد نہیں کر رہا۔
ریپبلکن سینیٹر لنڈسی گراہم نے اس صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے کہا، “کھیل شروع ہو چکا ہے، ہم اسرائیل کے لیے دعا گو ہیں۔”
سی این این کے مطابق، اسرائیلی حملے کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزارتی اجلاس طلب کر لیا تھا، جو پہلے سے طے شدہ تھا۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، امریکی حکام کو حملے کی توقع تھی۔ ایرانی ذرائع نے بتایا کہ تہران کے علاقے شہید محلاتی جہاں ایرانی اعلیٰ عسکری رہنما رہائش پذیر ہیں، کو نشانہ بنایا گیا اور وہاں تین رہائشی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔
امام خمینی ایئرپورٹ کے حکام نے تمام پروازیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی چینل 12 نے اطلاع دی کہ اسرائیلی طیاروں کی سول پروازوں کو قبرص کے لارناکا ایئرپورٹ کی طرف موڑ دیا گیا ہے، جبکہ عراقی حکام نے اپنی فضائی حدود ہر قسم کی پروازوں کے لیے بند کر دی ہیں۔
یہ ایک نئی اور خطرناک جنگ کا آغاز ہے، جس میں ایک طرف قابض اسرائیل کی سفاکیت ہے اور دوسری طرف ایک خودمختار قوم کی خودداری، قربانی اور مزاحمت۔ اس منظرنامے میں فلسطین اور ایران کا دکھ ایک ہے، دشمن ایک ہے اور جدوجہد ایک ہے۔