Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

جامعات قابض اسرائیل کے ساتھ تعاون ختم کریں:یورپی ماہرین

برسلز(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) یورپ کے متعدد ماہرین تعلیم نے باضابطہ طور پر اپنی جامعات سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیلی اداروں کے ساتھ ہر قسم کا تعاون بند کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے مظلوم عوام پر قابض اسرائیل کی جاری درندگی اور اجتماعی نسل کشی کے ساتھ ساتھ تعاون جاری رکھنا دراصل اس کی جنگی پالیسیوں اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں براہِ راست شریک ہونا ہے۔

ماہرین تعلیم نے اپنی گفتگو میں زور دیا کہ یورپی تعلیمی ادارے اپنی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں اور ایسی تمام کڑیاں توڑ دیں جو انہیں قابض اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کا شریک بناتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نیدرلینڈز کی کئی جامعات جیسے امسٹرڈیم، اوترخت، لیدن، ایراسمس روٹرڈیم اور تیلبرگ نے اسرائیلی اداروں کے ساتھ تعاون ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ علمی بائیکاٹ کی یہ لہر اب یورپ سے نکل کر لاطینی امریکہ تک پھیل رہی ہے۔ تاہم برطانیہ کی جامعات اب بھی پیچھے ہیں حالانکہ عوامی اور علمی دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

نیمیخن کی رادباوڈ یونیورسٹی کی پروفیسر اخلاقیات و سیاسی فلسفہ انیا ٹوپولسکی نے انکشاف کیا کہ گذشتہ جون میں ایک آزاد تحقیقی کمیٹی کی رپورٹ نے قابض اسرائیل کے ساتھ مختلف سطحوں پر ہونے والے “وسیع تواطؤ” کو بے نقاب کیا تھا۔ رپورٹ میں واضح اعداد و شواہد شامل تھے جو قابض اسرائیل کے ساتھ علمی میدان میں ہونے والی اخلاقی شراکت داری کو ظاہر کرتے ہیں۔

ٹوپولسکی نے کہاکہ “ہم بحیثیت ماہرین تعلیم انسانی حقوق، جمہوریت اور مساوات پر یقین رکھتے ہیں اور نسل کشی کو مسترد کرتے ہیں۔ ہماری براہِ راست اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم قابض اسرائیل کے جرائم پر خاموش نہ رہیں۔ ہمیں یہ دیکھ کر گہرا صدمہ ہوتا ہے کہ جامعات اپنی ہی دی ہوئی اخلاقی تعلیمات کو نظرانداز کر رہی ہیں اور فلسطین کے معاملے پر مساوات و آزادی کے تقاضے ترک کر چکی ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ جب یوکرین میں جنگ چھڑی تو یورپی جامعات نے فوری طور پر روسی اداروں سے تعلقات ختم کر دیے تھے مگر اسرائیل کے معاملے میں وہ بہانہ کرتی ہیں کہ جب تک حکومتیں فیصلہ نہ کریں وہ کوئی اقدام نہیں اٹھائیں گی۔ یہ طرزِعمل شدید مایوسی کا باعث ہے۔

ٹوپولسکی نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ کئی جامعات صرف اپنی عوامی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہیں مگر حقیقی بائیکاٹ سے گریزاں ہیں۔ مثال کے طور پر اوترخت یونیورسٹی نے بظاہر بائیکاٹ کا اعلان کیا لیکن عملاً اس کے کئی منصوبے تاحال اسرائیلی اداروں کے ساتھ جاری ہیں بلکہ اکتوبر سنہ2023ء کے بعد مزید نئے منصوبے شروع کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ “میں ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ بچپن سے سوچتی آئی کہ اگر لوگ اُس وقت حقیقت جانتے تو کیا ظلم رک سکتا تھا؟ آج غزہ میں سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے مگر دنیا پھر بھی خاموش ہے۔”

انیا ٹوپولسکی نے واضح کیا کہ صرف تعاون ختم کرنا کافی نہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی فلسطین کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان کے مطابق “روس کے معاملے میں تو تعاون فوری بند کیا گیا لیکن قابض اسرائیل کے معاملے میں جان بوجھ کر ٹال مٹول کی جا رہی ہے۔”

اسی تناظر میں 16 اپریل سنہ2025ء کو امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں واقع پٹزر کالج نے بائیکاٹ موومنٹ BDS کے تحت اسرائیلی جامعات اور اداروں کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔

یونیورسٹی آف کوئینز بلفاسٹ کے پروفیسر جان بیری نے کہا کہ یورپی جامعات کا اسرائیلی اداروں کے ساتھ تعاون دو طرح کا تواطؤ ہے۔ پہلا سکیورٹی اور فوجی ٹیکنالوجی میں شراکت ہے خصوصاً نگرانی کی ٹیکنالوجیز میں، جو اکثر فوجی استعمال میں بدل جاتی ہیں۔ دوسرا تواطؤ انہیں عالمی سطح پر “جائز حیثیت” دینا ہے تاکہ دنیا یہ سمجھے کہ سب کچھ نارمل ہے۔

پروفیسر بیری نے کہا: “ہم ماہرین تعلیم کسی نسل کشی یا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے شریک نہیں بننا چاہتے۔ اسرائیلی اداروں کے ساتھ تعاون کا مطلب ہے کہ یورپی جامعات خود ان جرائم میں شریک ہیں۔”

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan