Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

عسکری مقاصد میں ناکام صہیونی ریاست کی غزہ میں خانہ جنگی اور فتنے کی آگ بھڑکانے کی نئی سازش

غزہ  (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کے دل میں جہاں زندگی پہلے ہی ملبے اور ماتم کے سائے میں سسک رہی ہے، قابض اسرائیل نے ایک اور خطرناک منصوبہ شروع کر دیا ہے۔ دو دہائیوں پر محیط جارحیت، بے رحمانہ بمباری، قید و بند اور بھوک کی پالیسیوں کے باوجود جب قابض اسرائیلی ریاست فلسطینی مزاحمت کو کچلنے میں ناکام رہی تو اب اس نے ظلم کا ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ غزہ کے اندر خود ساختہ مسلح گروہوں کو ہتھیاروں سے لیس کر کے فلسطینی معاشرے کو اندر سے توڑنے کی ناپاک جسارت شروع کی ہے۔

یہ ایسا سنگین اقدام ہے جو نہ صرف غزہ بلکہ دنیا بھر کے انصاف پسند انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔

غزہ میں درندگی کی نئی شکل

سنہ2023ء میں شروع ہونے والی جارحیت میں قابض اسرائیل نہ تو حماس کو ختم کر سکا نہ ہی اپنے قیدیوں کو بازیاب کرا سکا۔ جنگی طیاروں، میزائلوں، ٹینکوں اور بھوک و پیاس جیسے ہتھیار آزمانے کے باوجود قابض ریاست اپنے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ اس ناکامی کے بعد اب بنجمن نیتن یاھو کی حکومت نے ایک اور شرمناک راستہ اپنایا ہے۔ غزہ میں مسلح گروہوں کو منظم کرنا، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو عوام کے خلاف استعمال کرنا۔

یہ گروہ جنہیں قابض ریاست “حماس کے خلاف اندرونی جنگ” کے نام پر تیار کر رہی ہے دراصل فلسطینی سماج کو اندر سے توڑنے، ان میں بداعتمادی پھیلانے اور مدد رسانی کے تمام راستے بند کرنے کا ہتھیار ہیں۔

نیتن یاھو نے حالیہ بیان میں ان گروہوں کو “ قبائل کی شمولیت” کا نام دے کر اس مکروہ عمل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی، مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ اعلان دراصل اُس فوجی، سیاسی اور اخلاقی ناکامی کا کھلا اعتراف ہے جس کا سامنا قابض اسرائیل کو غزہ میں ہے۔

سماجی انتشار: قابض اسرائیل کا نیا ہتھیار

ماہرین کے مطابق یہ محض ایک وقتی چال نہیں بلکہ قابض اسرائیل کی جانب سے باقاعدہ سماجی تباہی کی منصوبہ بندی ہے۔ جیسے ماضی میں جنوبی لبنان میں اینٹون لحد کی کٹھ پتلی فوج کے ذریعے کیا گیا تھا ویسے ہی غزہ میں فتنہ و فساد کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار ایاد القرا کا کہنا ہے کہ “یہ گروہ نہ عوام میں مقبول ہیں، نہ ان کا کسی عشائر سے تعلق ہے، نہ ہی فلسطینی اتھارٹی انہیں تسلیم کرتی ہے۔ یہ قابض اسرائیل کا ایک ناکام منصوبہ ہے جو چند دن بھی فلسطینی عوام کے سامنے ٹک نہیں پائے گا‘۔

ایاد القرا نے مزید انکشاف کیا کہ غزہ کے مشرقی علاقوں خصوصاً رفح کے اطراف میں ایسے گروہوں کی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں، مگر عوامی ردعمل اور شدید غصے کی وجہ سے ان کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔

قابض اسرائیل داعش کا سرپست نکلا

حقوق انسانی کے بین الاقوامی ادارے ’یورو- میڈ رصدگاہ برائے انسانی حقوق‘ کے سربراہ ڈاکٹر رامی عبدہ نے ان مسلح گروہوں کی سرگرمیوں کو کھلی ’جنگی جرائم‘ اور ’نسل کشی‘ قرار دیا ہے۔

ان کے مطابق”یہ گروہ اسرائیلی سرپرستی میں غزہ میں خوراک کی گاڑیوں کو لوٹتے ہیں، امدادی قافلوں کو روکتے ہیں، شہریوں پر گولیاں چلاتے ہیں اور انسانی امداد کی تقسیم میں رخنہ اندازی کرتے ہیں۔ یہ بھوک کو جنگی ہتھیار میں تبدیل کرنے کی انتہائی گھٹیا اور غیر انسانی پالیسی ہے”۔

ڈاکٹر رامی عبدہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر ان گروہوں کو غیر مسلح کیا جائے اور ان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل نے نہ صرف غزہ کا محاصرہ کیا بلکہ اب معاشرتی توازن کو بھی بگاڑ کر فلسطینی معاشرے کی بنیادیں ہلا رہا ہے۔

عوام اور سرکاری اداروں کا واضح انکار

قابض اسرائیل کی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ تو فلسطینی اتھارٹی نے ان گروہوں کو قبول کیا ہے، نہ ہی غزہ کے بڑے قبائل نے ان سے کسی قسم کا تعلق تسلیم کیا ہے۔ عوام کی جانب سے ان کے خلاف شدید غصہ ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان گروہوں کی کوئی بقا نہیں، یہ صرف بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہیں اور جلد عوامی ردعمل کا شکار ہو جائیں گے۔

غزہ کو داخلی خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش

قابض اسرائیل کے ان نئے ہتھکنڈوں کا اصل ہدف اب واضح ہو چکا ہے: فلسطینی معاشرے کو اندر سے توڑ کر ایسے خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا جو اسرائیلی جنگی ناکامیوں کا بدل بن سکے۔

اگر عالمی برادری نے اس خطرناک حکمت عملی کو نہ روکا، تو غزہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں، بلکہ ایک ایسی تباہی کا منظر بن جائے گا جہاں نہ کوئی سکون ہوگا، نہ امید، نہ امن۔

ڈاکٹر رامی عبد نے آخر میں متنبہ کیا کہ’عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ خاموشی توڑے، ورنہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ انسانی تاریخ کی سب سے سنگین تباہی میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس کا مکمل ذمہ دار قابض اسرائیل اور اس کے حامی ہوں گے”۔

جب فتنہ پھیلانے والے ہتھیار بن جائیں

یہ سوال اب ہر انسانی ضمیر سے کیا جانا چاہیے۔ کیا دنیا اب بھی خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ یا وہ وقت آ گیا ہے جب انسانیت، انصاف اور قانون کی پاسداری کے لیے قابض اسرائیل کو اس کی درندگی سے باز رکھا جائے؟

غزہ ایک تجربہ گاہ نہیں، بلکہ ایک زندہ معاشرہ ہے۔ ان مسلح گروہوں کو قابض اسرائیل کی سرپرستی میں فروغ دینا دراصل فلسطینی قوم کے خلاف ایک نئے مرحلے کی نسل کشی ہے، جو اب بند ہونی چاہیے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan