جنیوا (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) عالمی ادارہ صحت نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے محصور علاقے میں فوری طور پر ایندھن کی فراہمی کی اجازت دی جائے تاکہ وہاں کے چند باقی ماندہ ہسپتالوں کو چلایا جا سکے۔ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کا صحت کا نظام مکمل طور پر تباہی کے کنارے پہنچ چکا ہے۔
ادارے کے نمائندے ریک بیبرکورن نے بتایا کہ غزہ میں سو دن سے زائد عرصے سے ایندھن داخل نہیں ہوا ہے، اور کئی مرتبہ ایندھن پہنچانے کی کوششیں، جن میں مختلف محفوظ علاقے شامل تھے، قابض اسرائیل نے رد کر دی ہیں۔
ریک بیبرکورن نے بتایا کہ اس صورتحال میں صحت کا نظام شدید زوال کا شکار ہے، کیونکہ نہ صرف ایندھن کی کمی ہے بلکہ ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی بھی شدید قلت ہے۔
اب صرف 36 میں سے 17 ہسپتال کم از کم سطح پر یا جزوی طور پر کام کر رہے ہیں، جن میں کل 1500 بستروں کی گنجائش ہے، جو جنگ شروع ہونے سے پہلے کی حالت سے تقریباً 45 فیصد کم ہے۔
مزید کہا گیا کہ شمالی غزہ کے تمام ہسپتال اور ابتدائی صحت کی دیکھ بھال کے مراکز مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں، جس سے لاکھوں بے بس فلسطینیوں کی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
قابض اسرائیل نے سنہ2025ء کے مارچ کی 18 تاریخ سے وسیع پیمانے پر تباہ کن حملے شروع کیے ہیں، جن میں زیادہ تر ہدف بے گناہ فلسطینی شہری، ان کے مکانات اور مہاجر کیمپ رہے ہیں۔ قابض فوج نے مئی کی 8 تاریخ کو “عربات جدعون” نامی آپریشن شروع کر کے غزہ پر مزید وسیع حملے کیے۔
سنہ2023ء کے اکتوبر سات سے قابض اسرائیل امریکہ کی بھرپور حمایت کے ساتھ غزہ میں ایک منظم نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے، جس میں نہ صرف قتل و غارت گری بلکہ بھوک مریض اور بے گھر کرنے کی سازش بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود عالمی ادارے اور بین الاقوامی عدالت انصاف کی جانب سے جاری کیے گئے احکامات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، قابض اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 55 ہزار 493 شہید اور 129 ہزار 320 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بچے، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں۔
یہ دردناک صورتحال پوری دنیا کے سامنے فلسطینیوں کے خلاف قابض ریاست کی جاری نسل کشی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے، جسے روکنا ہر انسانیت کے داعی کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔