Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

فاقہ کش فلسطینیوں کے لیے لائی گئی امداد کو صہیونی غاصب نے کیسے لوٹ مار کانشانہ بنایا؟

غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کے نہتے اور مظلوم عوام کے لیے بھوک اب بمباری سے زیادہ خوفناک جنگ بن چکی ہے۔ قابض اسرائیل نے انسانی امداد کو اپنی درندگی اور مفاد پرستی کا ہتھیار بنا لیا ہے۔ انسانی امداد کی فراہمی کو اسرائیلی شرائط سے مشروط کر دیا گیا ہے، جن میں سب سے ظالمانہ شرط یہ ہے کہ امدادی سامان مستحقین کے ہاتھوں تک نہیں، بلکہ لوٹ مار اور بدنظمی کے ذمہ داروں کے ہتھے چڑھے۔

حالیہ دنوں میں جب فلسطینی قبائل نے مل کر درجنوں امدادی ٹرکوں کو غزہ شہر میں عالمی ادارہ خوراک کے گوداموں تک محفوظ پہنچایا، تاکہ وہ صہیونی فوج کی سرپرستی میں کام کرنے والے مسلح گروہوں سے محفوظ رہ سکیں تو قابض اسرائیل نے فوری طور پر امدادی ٹرکوں کی غزہ میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ بنجمن نیتن یاھو اور اس کے وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے دعویٰ کیا کہ یہ امداد “حماس کے قبضے” میں جا رہی ہے، حالانکہ یہ دعویٰ بے بنیاد اور خودساختہ ہے۔

قابض اسرائیلی حکومت نے اپنی اس جارحانہ پالیسی کے تحت فوج کو 48 گھنٹوں میں نئی حکمت عملی بنانے کا حکم دیا ہے تاکہ امداد حماس تک نہ پہنچے۔ یہ اعلان اسرائیلی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا۔

تقریباً 120 امدادی ٹرک جو “زیکیم” نامی صہیونی فوج کے زیرقبضہ راستے سے غزہ میں داخل ہوئے تھے، فلسطینی قبائل نے جان پر کھیل کر انہیں محفوظ پہنچایا۔ قبائلی عمائدین کے اعلیٰ ادارے کے سربراہ حسنی المغنی کے مطابق اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ تمام فلسطینیوں میں امداد منصفانہ طور پر تقسیم ہو اور صہیونی محاصرے کی وجہ سے پیدا ہونے والی قحط جیسی صورتحال کا ازالہ کیا جا سکے۔

دوسری جانب خان یونس پہنچنے والے تمام آٹے سے بھرے ٹرک قابض اسرائیلی فوج کی سرپرستی میں کام کرنے والی لوٹ مار کی گروہوں نے لوٹ لیے۔

ماہرین کے مطابق اسرائیلی دعویٰ کہ “حماس امداد پر قابض ہے”، محض ایک جھوٹا اور بار بار دہرایا جانے والا بہانہ ہے تاکہ غزہ میں افراتفری کو مستقل شکل دی جا سکے۔

بار بار بولا جانے والا صہیونی جھوٹ

فلسطینی صحافی اور مصنف احمد ابو رتیمہ نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل امدادی ٹرکوں کے داخلے کو غیر انسانی شرائط سے مشروط کر رہا ہے۔ وہ امداد کی محدود مقدار کو صرف اس شرط پر داخل ہونے دیتا ہے کہ وہ راستے میں لوٹ لی جائے۔ ان کے مطابق، اسرائیل نے امدادی قافلوں کی آمد کو اس وقت روک دیا جب عوامی کاوشوں سے کچھ ٹرک محفوظ طریقے سے بین الاقوامی اداروں کے گوداموں تک پہنچ گئے۔

ابو رتیمہ کے مطابق، “یہ جھوٹا دعویٰ کہ امداد پر حماس کا قبضہ ہے، اب کسی کو قائل نہیں کرتا۔ اگر حماس کا کنٹرول ہوتا تو یہ امداد بین الاقوامی اداروں تک کیسے پہنچتی؟ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کا اصل ہدف فلسطینی قوم کو بھوکا رکھ کر تباہ کرنا ہے”۔

انہوں نے زور دیا کہ یہ ایک مکمل جنگی جرم ہے جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے جاری ہے اور عالمی برادری شرمناک حد تک خاموش ہے۔

غزہ میں بدامنی، لوٹ مار اور امدادی سامان کی چوری دراصل ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو قابض اسرائیل کی سیاسی اور سکیورٹی پالیسیوں کے تحت منظم انداز میں چلائی جا رہی ہے۔ ایک عرصے سے قابض اسرائیل امدادی ٹرکوں کو اس شرط پر داخل ہونے دیتا ہے کہ وہ منزل تک محفوظ نہ پہنچیں۔

میدانی اطلاعات کے مطابق کچھ ڈرائیور راستے میں جان بوجھ کر ہارن بجاتے ہیں تاکہ لوٹ مار کرنے والے گروہوں کو اطلاع دے سکیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں، تو نہ ان کے پاس کوئی منزل ہوتی ہے، نہ تحفظ۔

منظم گروہ ٹرکوں کی نگرانی کرتے ہیں، اور قابض اسرائیل کے تحفظ میں داخل ہونے والی امداد کو لوٹ کر بلیک مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔

ابو رتیمہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا بنایا گیا یہ پورا نظام امداد کی فراہمی کے لیے نہیں بلکہ فلسطینیوں کو بھوک کی لکیر پر رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ جب امداد لوٹ لی جاتی ہے تو اسے میڈیا میں “اندرونی انتشار” یا “مسلح گروہوں کی گرفت” قرار دے کر جواز بنایا جاتا ہے، جبکہ یہ سارا فتنہ خود اسرائیل نے کھڑا کیا ہوتا ہے۔

غزہ میں افراتفری پھیلانے کی سوچی سمجھی سازش

الجزیرہ ڈاٹ نیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس نے جنگ کے آغاز سے ہی ڈاکوؤں، لٹیروں اور غنڈوں کو بھرتی کر کے ان سے معلومات لینے، امدادی ادارے تباہ کرنے، ہسپتالوں، یونیورسٹیوں، سکولوں اور گھروں کو لوٹنے کا کام لیا۔ قابض اسرائیلی فوج نے ان گروہوں کو نہ صرف سکیورٹی فراہم کی بلکہ ان کے ذریعے امداد کے راستوں پر باقاعدہ لوٹ مار کروائی۔

عالمی اداروں اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق، اسرائیلی فوج خود ان مسلح گروہوں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دیتی ہے، اور وہ اس بہیمانہ نظام کا حصہ ہیں جس کے تحت یاسر ابو شباب جیسے غنڈے قابض اسرائیل کے کنٹرول والے علاقوں میں اپنی چھاؤنیاں قائم کر چکے ہیں۔

قابض اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کی نام نہاد “یومِ بعد کی حکمت عملی” دراصل بھوک کو بطور پالیسی اپنانے کا اعلان ہے۔ وہ غزہ کو عراق کی طرز پر ٹکڑوں میں بانٹ کر اسے مکمل تباہی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔

ایسے عالم میں جب عالمی برادری تماشائی بنی بیٹھی ہے، احمد ابو رتیمہ کہتے ہیں کہ عوامی اور غیرجانبدار امدادی کوششیں ایک امید کی کرن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عوامی تحریکیں کسی سیاسی جماعت کے ماتحت نہیں بلکہ عوام کے ضمیر کی آواز ہیں۔ ان کا مقصد لوگوں کی عزت نفس بچانا اور کم از کم زندگی بچانے والی خوراک تک رسائی ممکن بنانا ہے۔

ابو رتیمہ خبردار کرتے ہیں کہ اگر یہ تحریکیں نہ بڑھیں تو میدان صرف لٹیروں، بلیک مارکیٹ کے تاجروں اور ضمیر فروشوں کے حوالے ہو جائے گا، اور معصوم فلسطینی خاموشی سے مرتے رہیں گے۔

ان کے بقول، “یہ صرف افراتفری نہیں بلکہ ایک مکمل منصوبہ بند جرم ہے: خوراک کی بندش، امداد پر قدغن، لوٹ مار کو آسان بنانا، اور آخر میں مظلوموں پر الزام دھر دینا۔ یہ دن اور رات کی دوہری جنگ ہے۔ دن میں بم، رات میں بھوک، اور درمیان میں بے سہارا انسان۔”

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan