غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیلی میڈیا نے منگل کے روز اعتراف کیا ہے کہ غزہ کی سرزمین پر فلسطینی مزاحمت کی بڑھتی ہوئی جرات و قربانی نے قابض اسرائیل کی افواج کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب قابض اسرائیلی فوج عبوات دھماکہ خیز کو غزہ میں اپنے لیے “سب سے بڑا خطرہ” قرار دے رہی ہے۔
اس اعتراف کی تازہ مثال بیت حانون میں پیش آنے والا وہ واقعہ ہے جہاں پیر کی شام فلسطینی مجاہدین کی جانب سے نصب کی گئی بارودی سرنگ کے دھماکے میں 5 قابض فوجی ہلاک اور 14 زخمی ہو گئے۔ قابض اسرائیل کی فوجی ریڈیو نے بتایا کہ غزہ میں موجود تمام اعلیٰ فوجی افسران اس بات پر متفق ہیں کہ عبوات دھماکہ خیز ہی قابض اسرائیلی افواج کے لیے سب سے مہلک اور تباہ کن خطرہ بن چکی ہیں۔
ریڈیو کے مطابق قابض فوج کی تازہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران غزہ میں 70 فیصد سے زائد قابض فوجی ہلاکتیں انہی دھماکہ خیز آلات کے باعث ہوئی ہیں۔ صرف 18 مارچ سے اب تک 38 ہلاکتوں میں سے 27 کی موت عبوات دھماکہ خیز سے ہوئی۔
بارودی سرنگوں کی دو بنیادی اقسام ہیں۔ ایک، سڑکوں پر نصب گھات کی شکل میں، جس سے 19 فوجی مارے گئے۔ دوسری عمارتوں میں نصب مواد جس سے 6 فوجیوں کی جانیں گئیں۔
قابض اسرائیل کی فوجی ریڈیو مزید بتاتی ہے کہ حالیہ ہفتوں میں فلسطینی مجاہدین، خاص طور پر حماس کے جوان، اب ماضی کی نسبت کہیں زیادہ جرات اور دلیری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ اب وہ عبوات لگا کر پیچھے ہٹنے کے بجائے خود لڑائی میں سامنے آتے ہیں، ملبے کے ڈھیر سے نکلتے ہیں، گولی چلاتے ہیں اور جانتے ہوئے بھی کہ وہ نشانے پر آ سکتے ہیں، پھر بھی اپنی جگہ سے ہٹتے نہیں۔
قابض اسرائیلی میڈیا کے مطابق کئی حالیہ جھڑپوں میں مجاہدین نے دھماکوں کے بعد بھی محاذ نہیں چھوڑا بلکہ وہیں ڈٹے رہے، یہاں تک کہ امدادی اور ریسکیو ٹیموں سے بھی ٹکرا گئے، تاکہ میدان جنگ میں اپنی موجودگی اور کامیابی کو مزید مضبوط کر سکیں۔
ریڈیو نے یہ انکشاف بھی کیا کہ حماس کے مجاہدین ان کارروائیوں کی اعلیٰ معیار کی ویڈیوز بھی بناتے ہیں، مختلف زاویوں سے، تاکہ انہیں اپنے پیغامات اور بیانیے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
رپورٹ میں بیت حانون کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ غزہ کا ایک اہم علاقہ ہے جو شہر سدیرت سے تین کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔ قابض اسرائیلی فوج اس علاقے پر بار بار چڑھائی کرتی رہی ہے، لیکن ہر بار جیسے ہی انخلاء ہوتا ہے، فلسطینی مجاہدین دوبارہ اپنی پوزیشن سنبھال لیتے ہیں۔
قابض میڈیا کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران شمالی غزہ میں ہونے والی ہر کارروائی میں بیت حانون مرکزی ہدف رہا ہے۔ تاہم فوج اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سطحی کارروائیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا کیونکہ حماس زیر زمین اپنی قوت کو منظم کرتی ہے اور یہی زیر زمین راستے اور سرنگیں اسے لڑائی جاری رکھنے کے قابل بناتی ہیں۔
اسرائیل نے ان مہینوں میں بیت حانون اور شمالی غزہ کے دیگر علاقوں پر بے رحمانہ بمباری کر کے عمارتوں، سکولوں، ہسپتالوں اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے، لیکن مجاہدین کی جدوجہد جاری ہے۔
سات اکتوبر سنہ2023ء سے امریکہ کی پشت پناہی میں قابض اسرائیل نے غزہ میں جو جنگ مسلط کی ہے، وہ نسل کشی، بھوک، تباہی، دربدری اور جبری ہجرت کا ایک اذیت ناک باب ہے۔ یہ خونیں مہم تمام بین الاقوامی اپیلوں اور عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو روندتے ہوئے آج بھی جاری ہے۔
اس خونی نسل کشی میں اب تک 1 لاکھ 94 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے اور عورتیں ہیں۔ 11 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں اور لاکھوں شہری جبری ہجرت پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ غزہ میں پھیلتی بھوک نے درجنوں بچوں سمیت کئی جانیں نگل لی ہیں۔