غزہ/صنعاء (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیلی درندگی اب فلسطین تک محدود نہیں رہی۔ آج پیر کی صبح قابض اسرائیل کے جنگی طیاروں نے یمن کے مغربی ساحلی شہر الحدیدہ پر وحشیانہ بمباری کی، جس میں شہر کا مرکزی بجلی گھر، اور کئی بندرگاہیں نشانہ بنائی گئیں۔
یمنی ذرائع ابلاغ کے مطابق قابض اسرائیل نے الحدیدہ شہر کو دانستہ طور پر اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا، جس سے وہاں شدید تباہی پھیلی۔
یمنی افواج کے ترجمان نے کہا کہ “ہماری فضائی دفاعی قوت نے صیہونی جارحیت کا مقابلہ کیا اور مقامی سطح پر تیار کیے گئے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے قابض دشمن کے کئی جنگی طیاروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔”
ذرائع نے مزید بتایا کہ اسرائیلی حملے میں حدیدہ کے علاوہ راس عیسیٰ، الصلیف اور راس الکتبیہ کے اہم تجارتی بندرگاہوں اور مرکزی بجلی گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا، جو یمن کی معیشت اور بنیادی ڈھانچے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ادھر انصار اللہ کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے رکن نے کہا کہ “قابض اسرائیل کی جارحیت ہمارے عزم کو کمزور نہیں کرے گی بلکہ غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کے لیے ہمارے جذبے کو مزید مضبوط کرے گی۔”
قابض اسرائیل کے جنگی وزیر یسرائیل کاٹز نے اس فضائی کارروائی کو “سیاہ پرچم” کا نام دیا اور دعویٰ کیا کہ جنگی طیاروں نے الحدیدہ، الصلیف، راس عیسیٰ اور راس الکتبیہ میں “اہداف” کو نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بحری جہاز گلیکسی لیڈر پر بھی حملے کا اعلان کیا، جسے دو برس قبل انصار اللہ نے یمنی پانیوں میں قبضے میں لیا تھا۔
صیہونی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے الحدیدہ پر کم از کم 20 بھاری میزائل فائر کیے۔
قابض اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ اس فضائی کارروائی میں یمنی مزاحمتی تحریک انصار اللہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لیے فضائیہ اور بحریہ کی مدد لی گئی اور کارروائی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی۔
قبل ازیں قابض اسرائیلی فوج کے ترجمان آویخائی ادرعی نے اتوار کو یمن کی تین بندرگاہوں کو خالی کرنے کی وارننگ جاری کی تھی اور ان پر بمباری کا عندیہ دیا تھا۔
دوسری جانب برطانوی میرٹائم آپریشنز اتھارٹی اور بحری سکیورٹی کمپنی “ایمبری” نے اتوار کو اعلان کیا کہ یمن کے جنوب مغربی ساحل کے قریب بحیرہ احمر میں ایک تجارتی جہاز کو مسلح حملے کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹس کے مطابق 8 چھوٹی کشتیوں پر سوار مسلح افراد نے 94 کلومیٹر جنوب مغرب میں موجود جہاز پر راکٹ اور ہلکے ہتھیاروں سے حملہ کیا۔
قابل ذکر ہے کہ انصار اللہ کے زیر انتظام یمنی مسلح افواج نے نومبر سنہ2023ء سے اب تک 100 سے زائد بحری جہازوں کو نشانہ بنایا ہے، جس کے نتیجے میں دو جہاز ڈوب چکے ہیں، ایک پر قبضہ ہو چکا ہے اور کم از کم 4 ملاح جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ان کارروائیوں نے دنیا کی کئی بڑی شپنگ کمپنیوں کو بحیرہ احمر اور نہر سویز کی راہداری چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے، جو کہ عالمی بحری تجارت کا تقریباً 12 فیصد راستہ ہے۔ ان کمپنیوں نے متبادل کے طور پر طویل اور مہنگے راستے اپنانے شروع کر دیے ہیں۔
یمن کی مزاحمت کو کچلنے کی ایک اور کوشش میں امریکہ نے سال 2024ء کے آغاز سے انصار اللہ پر فضائی حملے شروع کیے، تاہم امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی میں عمان کی ثالثی سے طے پانے والے غیر اعلانیہ معاہدے کے تحت یمن میں امریکی کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا۔ اس معاہدے میں دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے مفادات اور خاص طور پر بحیرہ احمر اور باب المندب میں امریکی جہازوں کو نشانہ نہ بنانے پر اتفاق کیا۔