Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

عرب حکمرانوں کی زبان فلسطین اور دل اسرائیل کے ساتھ  

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
عرب سربراہی کانفرنس جو 11نومبر کو سعودی عرب کے شہر ریاض میں منعقد ہوئی جہاں عرب ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف بھی شریک ہوئے ۔عرب سربراہی کانفرنس کے اختتام پر ایک تفصیلی اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے۔ بہت زیادہ کوشش کے باوجو دبھی دنیا میں کسی نے بھی عرب سربراہی اجلاس کی حمایت میں کوئی تجزیہ نہیں کیا ہے ۔نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے ؟ شاید اس وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا کے سیاسی تجزیہ نگار عرب حکمرانوں کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔
بہر حال اعلامیہ میں پہلی بات کی گئی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی جائے ۔مجھے یہ بات یہاں سمجھ سے بالا تر ہے کہ کون سی جنگ بندی کی جائے ؟ جبکہ غزہ میں تو کھلم کھلا جارحیت کی جا رہی ہے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔عرب سربراہی کانفرنس میں شریک حکمرانوں کا معذرت خوانہ رویہ یقینا امریکہ اور اسرائیل کے خوف کی واضح جھلک ہے جو یہ بتاتا ہے کہ یہ سارے حکمران اپنے ذاتی مفادات کو عزیز رکھتےہیں۔
اعلامیہ میں دوسری بات بھی اسی طرح کمزور موقف ہے کہ لبنان پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اس مذمت کی کیا حیثیت ہے ؟ مذمت تو عام آدمی بھی کرر ہا ہے ۔ کیا لبنان میں ہونے والی اسرائیلی جارحیت کو یہ عرب حکمران جارحیت بھی نہیں کہہ سکتے تھے ؟ اگر ایسا نہیں کہہ سکتے تو پھر مذمت سے بہتر ہے کہ خاموش رہتے۔
ایک اور حیرت انگیز بات جو اعلامیہ میں بیان کی گئی ہے کہ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ آزاد تحقیقات کی جائیں ؟ حیرت کی بات ہے کہ جو اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل آج 76سال اور خاص طور پر گذشتہ ایک سال میں ہونے والی نسل کشی اور جارحیت کو نہیں روک سکی ہے وہ کس طرح کسی معاملہ کی آزاد تحقیقات انجام دے سکتی ہے ۔ اس کھوکھلے معاہدے نے بھی عرب حکمرانوں کے دل کی بات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ حقیقت میں کوئی عملی کام کرنا ہی نہیں چاہتے۔
عرب سربراہی اجلاس میں غزہ میں نہتے اور بے گناہ شہریوں کا محاصرہ غیر قانونی عمل قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو غزہ کی پٹی سے فوری نکلنے اور رفح بارڈر کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہاں بھی یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر یہ مطالبہ کس سے کیا جا رہاہے ؟ رفح کراسنگ مصر امریکہ اور اسرائیل کی باہمی رضا مندی سے بند ہے کہ جہاں سے فلسطینیوں کے لئے امداد جانے نہیں دی جاتی تو اب اس مطالبہ کی بجائے کوئی عملی اقدام ہونا چاہئیے یا فقط ایک کاغذی مطالبہ کافی ہے جو اس عرب سربراہی اجلاس کے خاتمہ کے بعد خود بخود اپنی اہمیت بھی کھو دے گا؟
عرب اسلامک ممالک کے سربراہی اجلاس میں لبنان کی خود مختاری اور سلامتی کے تحفظ کیلئے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی گئی ہے۔ان عرب سربراہوں کا ایک ایک مذاق دیکھئے۔ یہ عالمی برادری سے کہتےہیں کہ لبنان میں جارحیت کو روکا جائے ۔کون سی عالمی برادری ؟ کیا وہی عالمی برادری جو سنہ1948ء سے تا حال فلسطین میں نسل کشی اور ظلم پر خاموش ہے ؟ کیا عالمی برادری کو گذشتہ ایک سال میں غزہ اور لبنان میں ہونے والا ظلم اور سفاکیت دیکھنے کے لئے عرب سربراہی کانفرنس کے اعلامیہ اور مطالبہ کی محتاجی ہے ؟ یہ وہی عالمی برادری ہے جس کے ہاتھ فلسطینی اور لبنانی عوام کے خون سے رنگے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ عرب حکمران اس نام نہاد عالمی برادری سے مطالبہ کر رہے ہیں جو خود ان عرب حکمرانوں کی فلسطین اور لبنان سے متعلق سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔
اعلامیہ میں فلسطینی سرزمین پر غیرقانونی صیہونی بستیوں کے قیام کی مذمت بھی کی گئی ہے۔سوال پھر وہی اٹھ رہاہے کہ کہ کیا یہ صیہونی بستیاں آج آبا دہو رہی ہیں ؟ اور ان کو روکنے کے لئے اب تک عرب حکمرانوں کی جانب سے کون سا عملی قدم اٹھایا گیا ہے ؟
عرب سربراہی اجلاس میں نام نہاد عالمی برادری سے مطالبوں اور ڈھکی چھپی مذمتوں سے زیادہ بہتر تو یہ تھا کہ عرب حکمرانوں کو غیرت اور حمیت یاد دلائی جاتی اور کہا جاتاکہ آج سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر بتائیں کہ کون غاصب اسرائیل کے ساتھ کتنے ارب ڈالر کی تجارت کر رہاہے۔عرب حکمرانوں کے اس اجلا س میں یہ بات ہونا چاہئیے تھی کہ مسلمان اورعرب حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بند کریں۔ عرب سربراہی اجلا س میں یہ بات ہونا چاہئیے تھی کہ غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لئے عملی اقدام کیا جائے گا۔عرب سربراہی اجلا س میں فلسطین اور لبنان کی مزاحمتی تحریکوں کو کس طرح مزید مضبوط کیا جائے ایسے موضوعات زیر بحث لانا چاہئیے تھے ۔غزہ میں بھوک اور قحط ختم کرنے کے لئے کون کون ی عرب حکومتیں عملی اقدامات کریں گی۔ اسرائیل کے ساتھ تعلق رکھنے والے مسلمان اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات ختم کئے جاتے اور ان کی او ائی سی اور عرب لیگ جیسی نام نہاد تنظیموں سے رکنیت کا خاتمہ کئے جانے پر بات کی جاتی۔
انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ عرب سربراہی اجلاس میں شریک حکمرانوں کی زبانوں پر فقط فلسطین اور لبنان کا ذکر رہا لیکن فلسطین اور لبنان کے مظلوم عوام کی مدد کے لئے دل سے کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔ یمن کے ایک آرٹسٹ کمال اشرف نے عرب سربراہی اجلاس کی عکاسی کرتے ہوئے ایک کارٹون بنایا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ عرب حکمرانوں کی زبان پر فلسطین ہے لیکن ان کے دل اسرائیل کے ساتھ ہیں اور ان کے دلوں میں اسرائیل بستا ہے۔
حقیقیت حال بھی یہی ہے کہ عرب حکمرانوں کی زبانیں فلسطین کے ساتھ ہیںجبکہ ان کے دل اور ہتھیار اسرائیل کے ساتھ ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan