غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں آج ہونے والے مشترکہ عرب اسلامی فالو اپ سربراہی اجلاس میں جمع ہونے والے بادشاہوں، صدور اور رہ نماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک بین الاقوامی عرب اسلامی اتحاد تشکیل دیں۔ حماس نے مطالبہ کیا کہ ریاض اجلاس میں غزہ کی پٹی اور لبنان میں نسل کشی کی جنگ کو روکنے کےلیے ٹھوس اور موثر اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
سمٹ کو بھیجے گئے ایک مکتوب میں حماس نے اس اتحاد کی ضرورت پر زور دیا کہ وہ غزہ کا محاصرہ توڑنے، مقبوضہ علاقوں سےاسرائیلی بے دخلی، فلسطینی عوام کو ان کے حق خود ارادیت کے ساتھ بااختیار بنانے کے لیے بھی کام کرے۔ حماس نے زور دیا کہ ایک مکمل خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام جس کا دارالحکومت یروشلم ہو اور فلسطینی پناہ گزینوں کی ان کے شہروں اور دیہاتوں کو واپس کیا جائے جہاں سے انہیں بے دخل کیا گیا ہے۔
حماس نے کہا کہ وہ اسرائیلی جارحیت روکنے کے حوالے سے کسی بھی سنجیدہ تجویز کو مثبت انداز میں دیکھے گی۔ اسرائیلی جارحیت کے خاتمے، غزہ سے قابض فوج کے انخلاء، بے گھر ہونے والوں کی واپسی، ہمارے لوگوں کے لیے ریلیف، محاصرے کو توڑنے، تعمیر نو اور قیدیوں کے حقیقی تبادلے کے معاہدے کے حصول کی ضمانت دیتے ہیں۔
حماس نے تمام ممالک اور اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر منصوبے تیار کریں اور غزہ کی پٹی کی آبادی کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
حماس نے تمام عرب اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض ریاست کا بائیکاٹ کریں، اس کے ساتھ کیے گئے تمام نارملائزیشن معاہدے منسوخ کریں، اور ہر ممکن طریقے سے قابض ریاست کو الگ تھلگ کرنے کے لیے کام کریں۔
حماس نے تمام بین الاقوامی فورمز پر دشمن، اس کی حکومت اور اس کی قیادت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا۔
عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے نام اپنے پیغام میں حماس نے خبردار کیا کہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی جنگ اپنے 400ویں دن سے گذر چکی ہے۔ اس نے 11 نومبر 2023 کو ہونے والی پچھلی سربراہی کانفرنس کے نتائج اور غزہ پر جنگ روکنے کے لیے پچھلی کانفرنس کے فیصلوں پر زور دیا تھا۔ خیال رہے کہ سعودی عرب کی میزبانی میں آج عرب ممالک اور عالم اسلام پرمشتمل اہم سربراہ اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں فلسطین کی تازہ ترین صورت حال اور لبنان میں مسلط اسرائیلی جارحیت روکنے پر غور کیا جائے گا۔