غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) ویسے تو دور حاضر کی خوفناک جارحیت اور نسل کشی کی جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں المیوں اور تباہ کاریوں کے ان گنت مناظر سوشل میڈیا پر موجود ہیں مگرایک حالیہ تصویر نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔
یہ تصویرانسانیت کےمسیحا ڈاکٹرحسام ابو صفیہ کی ہے جو کمال عدوان ہسپتال کے ملبے سے گذرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ہسپتال کے کئی روز سے جاری محاصرے کے دوران گذشتہ جمعہ کو فاشسٹ فوج نے نذرآتش کردیا تھا۔
ابو صفیہ کا راستہ “درد کی پگڈنڈی” کی طرح لگتا ہے۔ جب وہ تقریباً ڈیڑھ سال تک تباہی کے عالم میں اپنی سفید شرٹ پہنے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داری پر پورے عزم کے ساتھ کھڑے رہے۔اس دوران کا جواں سال بیٹا قابض فوج کی جارحیت کےنتیجے میں شہید ہوگیا۔ خاندان کو بار بار بے گھری کا سامنا کرنا پڑا۔ بھوک ،پیاس اور شدید گرمی اور شدید سردی میں ڈاکٹر ابو صفیہ ایک مرد آہن کی طرح انسانی خدمت پر ڈٹے رہے۔ وہ کئی بار زخمی ہوئے۔ کئی دن رات بیدار رہنا پڑا اور تھکاوٹ سے نڈھال ہوئے مگر ہمت نہیں ہاری۔ ابو صفیہ کی آواز میں سنسنی خیزی تھی۔ وہ شمالی غزہ میں اپنی گرفتاری اور کمال عدوان ہسپتال کو جلائے جانے تک اپنے مشن پر قائم رہے۔ وہ شمالی غزہ میں جاری انسانی المیے کے بارے میں اقوام عالم کی توجہ بار بار مبذول کراتے رہے مگر ان کی کسی نے نہ سنی۔
ڈاکٹر ابو صفیہ کی یہ تصویر فوٹوگرافر مہند المقید نے لی جوسوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ ٹویٹ کرنے والوں نے اس تصویر کو اس صورتحال سے تشبیہ دی جو غزہ کی پٹی ایک سال سے زائد عرصے سے اسرائیل کی تباہی کی جنگ کا سامنا کر رہی ہے۔ایک صارف نے لکھا کہ “غزہ کی طرح تنہا رہنے جانے والا ڈاکٹر‘۔
قابض فوج کے ٹینکوں کا سامنا کرنے والے ڈاکٹر ابو صفیہ کی تصویر پر ایک صارف نے کہا کہ ” غزہ کے بہادر لوگ ڈاکٹر ابو صفیہ کی طرح بہادر ہیں۔ دشمن فوج نے ان کے بیٹے کو قتل کیا، خود انہیں زخمی کیا، ان کے ہسپتال کو جلایا اور وہ اس وقت ہسپتال کے اندرتھے مگر باہر نہیں آئے۔ بیماروں اور زخمیوں کو بچانے کے لیے اپنا کام کر تے رہے۔ یہاں وہ اپنی گرفتاری سے پہلے آخری بار اپنی سفید شرٹ کے ساتھ ایک بھاری بکتر بند ٹینک کی طرف چل رہے ہیں۔ یہ ڈاکٹر حسام ابو صفیہ ہیں۔غزہ کا ایک اور ثابت قدم پہاڑ‘۔
صارف محمد جمیل نے لکھا کہ “ڈاکٹر حسام ابو صفیہ کتنے عظیم ہیں۔ ان کا مشن صرف جسم کے زخموں پر پٹی باندھنے تک محدود نہیں تھا بلکہ ہم انہیں یہاں ڈاکٹر ہانی بدران کو تسلی دیتے ہوئے دیکھتے ہیں جن کے خاندان کے سترہ افراد صہیونی فوج کی اس ننگی جارحیت کے دوران شہید ہوگئے۔
غزہ میں وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش نے ڈاکٹر ابو صفیہ کی تصویر پر ایک تبصرے میں لکھاکہ “اس تصویر کے ساتھ ڈاکٹر حسام ابو صفیہ نے مختصراً ہماری اجتماعی صورت حال کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ وہ ڈاکٹر جو انسانی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کرتا ہے۔ اپنے لوگوں کی خدمت اور اس کے پاس اس کے میڈیکل کوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک نہتے ڈاکٹر کو بھی قتل وغارت گری، تباہی اور قابض نازی دشمن کی وحشیانہ جنگی مشین کا سامنا ہے”۔
الجزیرہ نشریاتی ادارے نے ٹویٹ کیا کہ “غزہ کے لوگ ایسے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے اُس کے بیٹے کو قتل کر دیا، اُنہیں زخمی کر دیا۔ اُن کے ہسپتال کو جلایا اورمگر ڈاکٹر ابو صفیہ نےسپتال نہیں چھوڑا۔
مشہور کارٹونسٹ محمود عباس نے اپنے برش سے کھینچی گئی ایک تاثراتی تصویر ٹویٹ کی جس میں انہوں نے لکھا کہ “آپ کتنے اکیلے تھے”۔
براء نےاستفسار کیا کہ “ڈاکٹر حسام، آپ کی کیا ہمت ہے۔ آپ تو پہاڑ کی طرح سخت جان ہیں۔ یا آپ میں آسمانی اور خدائی ہمت ہے۔ دوسروں کے لیے اس کی کمی ہے؟!” ہم آپ کی آزادی کا انتظار کر رہے ہیں کہ آپ ہمیں اس کے بارے میں احتیاط سے بتائیں، بہادر ڈاکٹر۔ قوم آپ کی اور تمام قیدیوں کی آزادی کی منتظر ہے‘۔
ڈاکٹر ابو صفیہ کے بھتیجے محمد نے لکھا کہ کس طرح ان کے چچا نے اپنی قومی شناخت کو برقرار رکھنے، اپنے مقصد کا دفاع کرنے اور اپنے مریضوں کے ساتھ رہنے کا انتخاب کیا۔ وہ جنگ کے پہلے لمحے سے ہی غزہ کی پٹی چھوڑسکتے تھے مگر انہوں نے غزہ ہی میں رہنے کا عزم کیا۔
انہوں نے لکھا کہ اگر میرے چچا حسام وہاں سے جانا چاہتے تو وہ وہاں سے چلے جاتے۔ انہیں اس کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔ ان کے پاس اپنی بیوی کی طرف سے قازقستان کی شہریت ہے، لیکن انہوں نے ثابت قدمی سے انکار کر دیا۔
ایاد الدلیمی نے لکھا کہ “ہم اس زندگی میں اپنی موجودگی کا احساس کرتے ہیں، آپ کی حالت کے لئے نہیں ہے اور آپ ہی ہیں ہم سب ڈھل رہے ہیں آپ کا سورج غروب نہیں ہوگا۔آپ کا نام ایک ایسی قوم کی یاد میں کندہ ہے جو طویل عرصے تک زندہ رہے گی اور عن قریب آزاد ہو جائے گی”۔
بلاگرز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک مہم شروع کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ ڈاکٹر حسام ابو صفیہ اور ان کے باقی طبی عملے کی رہائی کے لیے قابض صہیونی ریاست پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
گذشتہ جمعہ کو قابض فوج نے کمال عدوان ہسپتال پر دھاوا بول کر اسے آگ لگا دی اور اسے مکمل طور پر تباہ کردیا۔ قابض فوج نے ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ سمیت ہسپتال میں موجود 350 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا جن میں 180 طبی اہلکار اور 75 دیگر شہری شامل ہیں۔قابض فوج کئی زخمیوں اور بیمار افراد کو بھی اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
بعد میں کچھ افراد کو چھوڑ دیا گیا تھا مگر انہیں حراست میں لینے کے بعد بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ رہائی پانے والوں نے ہسپتال کے اندر ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، رائفل کے بٹوں سے مارا پیٹ اور شدید سردی میں زمین پر کئی گھنٹے برہنہ رہنے جیسے مظالم کے بارے میں بتایا۔