عالمی سیاسی منظر نامہ پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان بڑی تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی دنیا میں یک قطبی اجارہ داری نظام کا خاتمہ ہے۔
سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد دنیا پر یک قطبی اجارہ داری نظام واضح طور پر قوی ہو گیا تھا۔ آج وقت گزرتے ساتھ ساتھ دنیا میں اس قدر تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں کہ اب یہ اجارہ دارانہ نظام جس کی قیادت امریکی استعمار کر رہا تھا اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں امریکہ کو ایک بے وفا ساتھی کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔یہ بات صرف امریکہ سے بلا جواز نفرت کی بنیادپر نہیں ہے بلکہ امریکہ کی دو سو سالہ تاریخ اس بات کی عکا س ہے کہ امریکہ ایک قابل اعتماد دوست نہیں ہے۔ ماضی میں راقم نے پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب کو لکھے گئے اپنے ایک خط نما مضمون میں یہی گذارشات تفصیل اور دلائل کے ساتھ پیش کی تھیں کہ امریکہ قابل اعتماد نہیں ہے۔
امریکہ کی بے وفائی ناقابل اعتمادی فقط پاکستان کے لئے ہی نہیں بلکہ لاطینی امریکہ کے ممالک بھی اس بے وفائی کا مزہ چکھ چکے ہیں۔غرب ایشیائی ممالک کے سربراہان مملکت جن میں سرفہرست سابق عراقی حکمران صدام حسین کا نام شامل ہے انہوں نے بھی امریکہ کی بے وفائی کا مزہ چکھا ہے۔اسی طرح لیبیا کے معمر قذافی کو انجام تک پہنچانے میں بھی ان کے عزیز دوست امریکہ نے بھرپور کرداد ادا کیا تھا۔ پاکستان جو کہ آزادی کے بعد سے اس کشمکش میں تھا کہ روس کی دوستی قبول کرے یا امریکہ کی، تو ا س زمانے میں امریکی یاروں کا پلڑا بھاری رہا اور پاکستان امریکی دوستی کی لائن میں کھڑا ہو گیا۔
بطور سیاسیات کا طالب علم جب آنے والے وقت میں دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ اور مشاہدہ کیاجن میں سے صدی کی ایک بڑی تبدیلی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی تھا۔اس انقلاب کے بانی امام خمینی ؒ کے مکتوبات اور خطابات کا مطالعہ کیا تو ایک بات بہت واضح طور پر عیاں رہی کہ انہوں نے اپنی قوم کو خبر دار کرتے ہوئے ہمیشہ اس بات کی تلقین کی کہ امریکہ کی دشمنی زیادہ بہتر ہے بہ نسبت کہ امریکہ ہمارا دوست بن جائے۔ بعد ازاں جب دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتا ہوں تو امام خمینی کی یہ باتیں جو انہوں نے اپنی قوم کے لئے بطور سبق سکھائی تھیں سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہیں۔کاش کہ دنیا کی دیگر اقوام اور انکے حکمران بھی کہ جنہوں نے امریکہ کو اپنا ناخدا سمجھ لیا ہے وہ بھی امام خمینی کی باتوں سے کچھ سبق حاصل کر لیتے۔
پاکستان کے ساتھ امریکہ کی بے وفائیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ پہلے پہل پاکستان تو خوشی خوشی امریکہ کی دوستی کے جھانسے میں آ گیا تھا اور خارجہ پالیسی مرتب کرنے والوں کا خیال تھا کہ پاکستان کی ترقی صرف اور صرف امریکہ کو آئیڈیل رکھ کر ہی کی جا سکتی ہے۔ ا سکا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے بعد ایک گروہ امریکی دوستی کی طرف جھک گیا جبکہ دوسرا برطانوی سرکار کے ساتھ مربوط رہا۔آج بھی پاکستان کے نامور سیاستدانوں کا قبلہ یا تو امریکہ ہے یا پھر برطانیہ ہے۔جہاں تک امریکہ کی بے وفائیوں کی بات ہے تو پاکستان کا ہر شہری آج اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ مشکل ترین وقت میں کہ جب پاکستان سنہ 1965اور سنہ1971ء میں بھارت کی جارحیت کا مقابلہ کر رہا تھا تو امریکہ کی حمایت واضح طور پر بھارت کے ساتھ یعنی پاکستان کے دشمن کے ساتھ تھی۔اسی طرح جب بھارت نے پاکستان کو دبانے اور دھمکانے کے لئے ایٹمی دھماکے کئے تو امریکہ نے بھارت پر پابندیاں لگانے کی بجائے پاکستان کو دھمکانا شروع کیا تا کہ پاکستان ایٹمی دھماکوں کا جواب نہ دے اور بعد میں پاکستان پر پابندیوں کی حمایت کر دی۔یہ سب کچھ امریکی دوستی کا تحفہ تھا جو پاکستان کو ملتا رہا۔ بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ اس سے آگے اس دوست نے ڈرون حملوں میں سیکڑوں بے گناہ شہریوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قتل کیا۔اس سے بڑھ کر پاکستان کے عوام کبھی بھی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم سی آئی اے سے تعلق رکھنے والے ریمنڈ ڈیوس کو نہیں بھول سکتے کہ جس نے دن دیہاڑے پاکستانی شہریوں کو قتل کیا۔یہ سب کارنامے امریکہ کی دوستی کا انجام رہے ہیں۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔آج بھی امریکہ پاکستان کو دوستی کا جھانسہ دے کر بہت کچھ کروانے پر مجبور کرنا چاہتا ہے لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے امریکہ کو اس قابل نہیں رکھا کہ اب وہ پہلے کی طر ح دباؤ میں لا کر دوستی کے جھوٹے دعووں کی بنیاد پر اپنے مفادات حاصل کرتا رہے۔ آج پاکستان چین کی ضرورت اور چین پاکستان کی ضرورت ہے، آج پاکستان ایران کی ضرورت اور ایران پاکستان کی ضرورت ہے، اسی طرح آج افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، روس کا حالیہ دورہ بھی پاکستان اور روس دونوں کی آپسی ضرورت اور دوستی کی کھلی مثال ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان نے چوہتر سال میں امریکی بے وفائیوں سے کافی کچھ سیکھنے کے بعد ”absolutly not“تک سفر کیا ہے۔
حال ہی میں یوکرائن کی مثال دنیا کے سامنے ہے۔جس کے لئے امریکہ نے بھرپور واویلا کیا کہ امریکہ یوکرائن کو نہ صرف نیٹو میں شامل کرے گا بلکہ نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر روس کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔روس کو بھی یہ خطرہ لاحق تھا کہ امریکی اجارہ داری از سر نو جارجیا، پولینڈ اور یوکرائن جیسے ممالک کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر خطے کا رخ کر رہی ہے تاہم روسی صدر پیوٹن نے بر وقت کاروائی کرتے ہوئے امریکی اجارہ داری کو لگام دی ہے۔لیکن دوسری طرف یوکرائن اور ان جیسے دیگر ممالک اور ان کے حکمرانوں کو اگر امریکی تاریخ سے سبق حاصل نہیں ہو اہے تو کم سے کم اب تو امریکہ کی یوکرائن کے ساتھ بے وفائی سے سبق حاصل کرنا چاہئیے۔
ماہرین سیاسیات نے کہا ہے کہ حقیقت میں روس نے امریکی اجارہ داری کو ایک مرتبہ پھر خطے میں پنپنے سے روک دیاہے۔یہ جنگ بظاہر یوکرائن کی فوج کے ساتھ لڑی جا رہی ہے لیکن یوکرائن کی پشت پناہ قوتوں میں امریکہ اور اسرائیل سمیت ہر وہ طاقت ملوث ہے جو اس خطے میں امن و امان کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔اس کا مقصد صرف اور صرف خطے کو ایک مرتبہ پھر امریکی اجارہ دارانہ نظام تلے لانا ہے لیکن امریکہ اب اس قابل نہیں رہا ہے کہ ماضی کی طرح اپنی اجارہ داری کو قائم کر سکے۔امریکہ افغانستان سے فرار کر چکا ہے، عرا ق میں بھی امریکہ کو شکست کا سامنا ہے، یمن میں امریکہ ایک ایسی جنگ کی قیادت کر رہا ہے جو سات سالوں سے جاری ہے لیکن امریکی آج تک اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں لہذا یہاں بھی شکست کھا چکا ہے، شام اور عراق میں داعش کے ذریعہ قائم کی جانے والی اجارہ داری کے لئے امریکہ نے سات ٹریلین ڈالرز تندور میں جھونک دئیے لیکن نتیجہ میں آج بھی امریکہ کو وہاں کچھ حاصل نہ ہوا اور شکست رہی، اس سے بڑھ کر امریکہ جس اسرائیل کے تحفظ اور پھیلاؤ کے لئے یہ سب کچھ انجام دے رہا تھا آج وہ اسرائیل بھی غیر محفوظ ہو چکا ہے اور جنگ مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کے اندر پہنچ چکی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ یہاں بھی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہے۔ایسے حالات میں امریکہ کے پاس یوکرائن کیلئے بے وفائی کا تحفہ ہی رہ جاتا ہے جو امریکی اجارہ دارانہ نظام کی تاریخ میں ہمیشہ سے ثبت رہا ہے۔دنیاکی اقوام کے لئے ان تبدیلوں میں ایک اہم ترین سبق یہ ہے کہ امریکہ کی دوستی نقصان دہ ہے اور امریکہ قابل اعتماد نہیں ہے بلکہ بے وفا ہے۔
تحریر:ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان