غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے کہا ہے کہ جماعت نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے مذاکرات کے تمام مراحل میں بھرپور لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ جارحیت کے حتمی خاتمے، غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا، بے گھر افراد کی واپسی، تعمیر نو اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے اب حماس پر نہیں بلکہ امریکہ کو فاشسٹ صہیونی ریاست پر دباؤ ڈالنا چالیے۔ حماس پردباؤ ڈالنے کی بات کرنے والا امریکہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا قصور وار ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو موصول ہونے والے ایک بیان میں حماس نے کہا کہ ہم نے جارحیت کو روکنے کی تجاویز پر بھرپور اور مثبت جواب دیا ہے۔ حماس ایک جامع اور مستقل جنگ بندی کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے باوقار معاہدے کے تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔
حماس نے کہا کہ اسے ثالثوں سے جو تجویز 5 مئی کو موصول ہوئی تھی اس نے اگلے ہی دن اس کی منظوری کا اعلان کر دیا۔ ہم نے 6 مئی کو اپنا جواب دیا، جسے ثالثوں اور تمام فریقین نے مثبت اور حوصلہ افزا قرار دیا جبکہ نیتن یاہو کا ردعمل غزہ کے علاقے رفح پرحملے کی شکل میں سامنےآیا۔ اس نے جنگ بندی کی تمام تجاویز کو ٹھکرا کر جنگ مسلط کردی
بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس نے واضح طور پر اس بات پر اپنے مثبت موقف کا اظہار کیا کہ 05/31/2024 کو امریکی صدر جو بائیڈن کی تقریر میں مستقل جنگ بندی، غزہ کی پٹی سے قابض افواج کے انخلاء، تعمیر نو اور قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے سامنے آنے والی تجاویز پر مثبت رد عمل دیا۔
حماس نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ تحریک نے غزہ کی پٹی میں مستقل جنگ بندی، اس سےاسرائیلی قابض فوج کے مکمل انخلا، قیدیوں کے تبادلے، تعمیر نو، بے گھر ہونے والوں کی اپنے علاقوں اور گھروں میں واپسی کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قرارداد میں شامل باتوں کا خیرمقدم کیا۔
دوسری طرف نازی ریاست کی قاتل اور دہشت گرد لیڈرشپ فلسطینیوں کا قتل عام، نسل کشی اور جنگی جرائم کا ارتکاب جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس نے امریکی صدر کی جنگ بندی کی تجاویز، سلامتی کونسل کی قرارداد اور عالمی عدالت انصاف کے جنگ روکنے کے تمام احکامات کو مسترد کردیا ہے۔
حماس نے کہا کہ اگرچہ بلنکن اسرائیل کی جانب سے تازہ ترین تجویز کی منظوری کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں، لیکن ہم نے کسی اسرائیلی اہلکار کو اس منظوری کے ساتھ بات کرتے نہیں سنا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی طرف سے جاری کردہ یقین دہانیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ امریکہ صیہونی قبضے کو ختم کرنے کی کوششوں میں شامل نہیں بلکہ وہ دشمن کی فلسطینیوں کےخلاف جنگ میں اس کا ساتھی ہے۔ امریکہ کے ہاتھ معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ وہ حماس کو معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹ کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور جنگ مسلط کرنے والی صہیونی ریاست کے ہاتھوں فلسطینیوں کی قتل وغارت گری پر خاموش تماشائی ہے۔
اس تناظر میں حماس کا کہنا ہے کہ ہم مسٹر بلنکن اور صدر بائیڈن کی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فاشسٹ قابض حکومت پر براہ راست دباؤ ڈالیں، جو قتل و غارت گری کے مشن کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔