نیو یارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن)اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دوسری بار غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کا مسودہ منظور کرنے میں ناکام رہی، جب کہ امریکا نے اپنا ویٹو پاور استعمال کیا جس کے نتیجے میں قرارداد ویٹو ہوگئی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس کے انتباہ کے باوجود قرارداد ناکام رہی۔
اس کے تازہ ترین ورژن میں قرارداد کے مسودے میں غزہ میں “انسانی وجوہات کی بنا پر فوری جنگ بندی” کا مطالبہ کیا گیا تھا جس میں “غزہ کی پٹی میں تباہ کن انسانی صورتحال” کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔
مختصر متن میں “شہریوں کے تحفظ”، “تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی” اور “انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی رسائی کو یقینی بنانے” کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
سلامتی کونسل میں ووٹنگ سے چند گھنٹے قبل گوتیریس نے زور دے کر کہا تھا کہ غزہ کی پٹی کی 85 فیصد آبادی کم از کم ضروریات زندگی کے بغیر زند ہے اور اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہے۔ اقوام متحدہ غزہ کے باشندوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ لیکن غزہ میں انسانی امداد کے نظام کے مکمل طور پر تباہ ہونے کا خدشہ ہے، جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
گوتیریس نے مزید کہا کہ غزہ میں صحت کا نظام تباہ ہو رہا ہے جب کہ ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غزہ کے لوگوں کے لیے خوراک ختم ہو رہی ہے اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق قحط کا شدید خطرہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ضروری حالات کے مطابق غزہ میں انسانی امداد کی موثر ترسیل اب موجود نہیں ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا غزہ میں ہونے والے واقعات سے امن عامہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا، اور بڑے پیمانے پر مصر کی طرف نقل مکانی کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا۔ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے عائد پابندیاں اقوام متحدہ کے اداروں کے لیے آبادی کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل بنا رہی ہیں۔