Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

علامہ اقبال اور فلسطین کا درد

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نومبر کے مہینہ میں شاعر مشرق اور مفکر اعظم علامہ محمد اقبال کا یوم پیدائش بھی ہے۔ اسی نومبر کے مہینہ میں ہی بالفور اعلامیہ جیسی سفاک اور سیاہ دستاویز بھی ہے جو دنیا میں ناانصافی کی بد ترین مثال ہے۔ اور اسی نومبر کے مہینہ میں 29نومبر کا دن بھی ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کا نعرہ لگانے والی اقوام متحدہ نے سنہ1947ء میں دنیا میں سب سے بڑی ناانصافی کا آغاز کیا۔ یعنی فلسطین کو ایک قرار داد کی مدد سے تقسیم کر کے غیر فلسطینیوں کو فلسطین میں اپنا ایک نیا وطن آباد کرنے کی اجازت دی یعنی فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا قیام ۔
آج 9نومبر ہے اور یوم پیدائش اقبال ہے۔ پاکستان میں کسی جگہ اس عظیم مفکر اور معمار پاکستان کو اس طرح خراج عقیدت پیش نہیں کیا گیا ہے جس طرح ان کی ذات کا تقاضہ تھا۔ بہر حال میں اس بات کو ایک المیہ سمجھتا ہوں ۔
علامہ اقبال کا شمار ان مفکروں میں ہوتا ہے جنہوںنے برصغیر میں انگریزوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی روح بیدار کی۔ نہ صرف بر صغیر بلکہ تمام ایشیائی ممالک میں علامہ اقبال کی حیثیت ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری اور کلام ایک زندہ و جاوید کلام ہے جو آج کے زمانوں کی سیاست اور حالات پر مکمل طور پر صادر آتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے حال میں رہتے ہوئے جہاں ماضی کو بیان کیا وہاں ساتھ ساتھ مستبقل کی ایسی پیشن گوئیاں کی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ثابت ہو رہی ہیں۔
علامہ اقبال جس زمانہ میں موجو دتھے یہ وہ زمانہ تھا جب ایک طرف سلطنت عثمانیہ داخلی خلفشار میں مبتلا ہو چکی تھی اور رفتہ رفتہ یہ کنٹرول ختم ہو رہ تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد فلسطین پر صیہونی غاصبانہ تسلط کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں تیز کر دی گئی تھیں۔ سنہ1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور کی جانب سےلکھا گیا خط جسے بعد میں بالفور اعلامیہ کہا گیا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ برطانوی حکومت کس طرح فلسطین پر غیر فلسطینیوں کو آباد کرنے کے لئے بے چین تھی۔
فلسطین پر قابض ہونے والے یہودی و صیہونی کبھی بھی فلسطین کے اصل باشند ے نہیں ہیں۔وہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں واردہوئےیہاں کے قدیم فلسطینیوں کونکال باہر کیا اور خود ان کی سرزمین پرقبضہ کرکے بیٹھ گئے۔آئندہ صدیوںمیں یہود کئی بار فلسطین سے نکالے گئے ہیں اوران کے ہیکل سلیمانی کوبھی نیست ونابود کردیاگیا۔ان کی دربدری کے زمانے میں پورے یورپ میں کوئی انہیں منہ نہ لگاتاتھا۔یہ مسلمان تھے جنہوں نے ان کی دستگیری کی۔
تاریخی واقعہ ہے کہ صیہونی تحریک کا بانی تھیوڈورہرزل سلطان عبدالحمید ثانی کے پاس آیا اور ان کو مال و متاع کی لالچ دی اور ساتھ ہی فلسطین کی زمین خریدنے کی بات کی جس پر سلطان نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا ۔1916ء میں سائیکس پیکو معاہدے میں ایک نقشہ پر لکیر کے ذریعہ فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا گیا اور بعد ازاں برطانیہ کی مدد سے اعلان بالفور کی بنیاد پر فلسطین کی تقسیم کے لئے باقاعدہ اعلان سامنے آیا۔جنگ عظیم اوّل (1914ء تا1918)کے خاتمے پربرطانیہ نے عربوں سے کئے گئے تمام تروعدوں سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین پرقبضہ کرلیا۔جس مجلس اقوام (نیشن آف لیگ)کے بارے میںاقبال نے کہاتھا
بہرِتقسیمِ قبورانجمنے ساختہ اند یعنی سادہ الفاظ میں ایسے کہہ لیجئے کہ کفن چوروں کی انجمن۔اس لیگ آف نیشن نے بھی 1922میں یہ خطہ برطانیہ کے انتداب(mandate)میں دے دیا۔یہ برطانوی اقتدار ایک یہودی حکومت ہی کے مترادف تھاکیونکہ انگریزوں نے اپنی طرف سے فلسطین میں اپنا جو پہلا ہائی کمشنر مقرر کیا(سربرہٹ سیموئل)وہ بھی یہودی تھا۔اسی زمانے میں مقاماتِ مقدسہ کے متعلق تنازعات کے حل کے لئے ایک رائل کمیشن کے قیام کی تجویز انگریزوں کے زیر غور تھی۔ایک مسلمان ممبرکے طور پرعلامہ اقبال کوکمیشن کا ممبر بننے کی پیش کش کی گئی مگرانہوں نے بوجوہ معذرت کرلی۔علامہ اقبال ہمیشہ سے فلسطین کے معاملہ پر انگریزوں کے کردار پر نالاں تھےئ اور احتجاج کرتے تھے۔
مسلمانان لاہور نے 7ستمبر 1929 کوانگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف بطوراحتجاج ایک جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔اسی زمانے میں یروشلم میں فلسطینیوں کے قتل وغارت کے الم ناک واقعات رونما ہوئے تھے۔آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں یہودیوں کی ہولناک سفاکی کی مذمت کی۔علامہ اقبال نے یہودیوں کویاددلایا کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوںنےیورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کونہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں اعلیٰ مناصب پرفائز کیا۔یہ کیسی احسان فراموشی ہے کہ بالفاظ اقبال:فلسطین میں مسلمان اور ان کی عورتیں اوربچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے جارہے ہیں۔
دراصل اعلانِ بالفور ہی کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطینیوں کوان کے وطن سے بے دخل کرکے زورزبردستی کے ذریعے ان کی زمینوں پرقبضہ کرنا شروع کردیاتھا۔ان کے دیہات کے دیہات تباہ کردیے گئے۔اگرکسی نے مزاحمت کی تواسے قتل وغارت کانشانہ بنایاگیا۔سفرانگلستان(1931) کے دوران میںجہا ںبھی موقع ملا،علامہ اقبال نے فلسطین کے بارے میں کلمہ خیر کہنے سے گریز نہیںکیا۔مثلاً:ایک موقع پرانگریزوں کواہل فلسطین کے ساتھ انصاف کی تلقین کی اورفرمایا کہ اعلان بالفور بالکل منسوخ کردینا چاہیے۔
علامہ اقبال پرمسئلہ فلسطین کی نزاکت اوراہمیت اس وقت اور زیادہ واضح ہوئی جب انہوں نے بذات خود فلسطین کاسفرکیا۔دسمبر1931ءمیں فلسطین کے نوروزہ سفرکااصل مقصد مؤتمر عالم اسلامی (اسلامی کانفرنس) میں شرکت تھی۔کانفرنس کے داعی سیدامین الحسینی تھے۔اس میں تقریباً 27ملکوں اورعلاقوں کے مندوبین شامل تھے جن میں ارباب علم وفضل بھی تھے اورسیاسی اورملی راہنما بھی۔اسی طرح متعدد واجب الاحترام بزرگ شخصیات اورمجاہدین آزادی اور اپنے اپنے ملکوں کی سیاست میں سرگرم ممبران پارلیمنٹ بھی۔گویا قبلہ اول کے شہر میں عالم اسلام کی منتخب شخصیات جمع تھیں۔یوں تو اس کانفرنس کے کئی مقاصدتھے لیکن سب سے اہم مقصدیہ تھا کہ مسلمانوںکو فلسطین پریہودیوں کے ناجائز قبضے کے سنگین مسئلے کااحساس دلایا جائے اور صہیونی خطرے کے خلاف اتحاد عالم اسلام کی تدابیر پرغور کیا جائے۔
کانفرنس کے دنوںمیں علامہ اقبال اوران کے ہمراہ غلام رسول مہر کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک رہے۔ایک نشست میں علامہ اقبال کونائب صدر بنا کر اسٹیج پربٹھایا گیا۔انہوں نے بعض کمیٹیوں کے اجلاس میں شریک ہو کر رپورٹیں مرتب کرنے میں بھی مددکی۔قیام فلسطین کے دوران میں علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کو جتنا بھی وقت اور موقع ملتا وہ مقامات مقدسہ اور آثار قدیمہ کی زیارت کو نکل جاتے۔ انہوں نے بیت اللحم میں کلیسا ئے مولد مسیح دیکھا اور الخلیل میںمتعدد پیغمبروں کے مدفنوںکی زیارت بھی کی۔ بیت المقدس شہر میں بھی انہوں نے بہت سے قابل دید مقامات وعمارات اور آثاردیکھے۔ ایک دن موقع پاکر انہوں نے فلسطین کے اسلامی اوقاف کا بھی معائنہ کیا۔کانفرنس کے مندوبین کو فلسطین کے دوسرے شہروں کا دورہ کرنے کی دعوت ملی مگر وہ سب جگہ نہیں جاسکے۔ قیام کے آخر ی دن شام کی نشست میں اقبال نے ایک موثرتقریرکی جس میں عالم اسلام کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو الحادمادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام کے دشمنوں سے اندیشہ نہیں ہے لیکن خود مسلمانوں سے مجھے اندیشہ ہے۔
علامہ اقبال نے نوجوانوں کاخاص طور پر ذکر کیا اور مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وطنوں کوواپس جاؤ تو روح اخوت کوہر جگہ پھیلا دو اوراپنے نوجوانوں پرخاص توجہ دو۔سفرفلسطین سے واپس آنے کے بعد بھی اقبال وائسرائے ہند اوربرطانوی اکابر کو برابر احساس دلاتے رہے کہ برطانیہ کی فلسطین پالیسی صریحاً مسلم مخالفانہ ہے۔اقبال نے اپنا یہ مطالبہ بھی برابر جاری رکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکا جائے او راعلان بالفور واپس لیا جائے۔
علامہ اقبال نے یہ بھی کہا کہ برطانوی پالیسی کے سبب مسلمانان ہند میں زبردست ہیجان واضطراب پیدا ہو رہا ہے۔اسی کا نتیجہ تھا کہ 24اور 25ستمبر 1937ءکوکلکتہ میں فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی۔علامہ اقبال اپنی کمزور صحت اوربیماری کے سبب اس میں شریک نہ ہو سکے لیکن وہ اپنے دلی جذبات کا اظہار اس طرح کر رہے تھے۔
جلتا ہے مگر شام وفلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
اسی زمانے میں انہوں نے کہا
خاک فلسطین پہ یہودی کا ہے اگر حق
ہسپانیہ پرحق نہیں کیوں اہل عرب کا
مقصدہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد ورطب کا
علامہ اقبال نے ایک مقام پر فرمایا تھا کہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی
آج کا فلسطین علامہ اقبال کے انہی اشعار کی ترجمانی کر رہا ہے۔ آج فلسطین میں مزاحمت نے ثابت کیا ہے کہ کافروں کو چاہے کتنا ہی اپنی ٹیکنالوجی پر گھمنڈ کیوں نہ ہو لیکن مومن بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی اور باطل قوتوں کا سرنگوں کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی علامہ اقبال کی شاعری کو زندہ و جاوید کہا جاتا ہے۔
علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام 7اکتوبر 1937ء کو خط میں لکھا کہ اتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیارہوں جس سے اسلام اورہندوستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پرمغرب کا ایک اڈابننا اسلام اورہندوستان دونوں کے لئے پْر خطرہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan