تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
حال ہی میں امریکن سینٹ کام کی ویب سائٹ پر نشر ہونے والی خبر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں ماہ پندرہ اور سولہ مارچ سے غرب ایشیاء میں امریکی قیادت میں پچاس ممالک کی بحری افواج کی مشترکہ مشقوں کا آغاز کیا جا رہاہے۔ اس خبر کی تحقیق سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ان مشترکہ بحری مشقوں کی ابتدائی تقریبات کا آغاز ستائیس فروری سے شروع کر دیا گیا ہے۔یو ایس سینٹ کام کی ویب سائٹ پر جاری تفصیلات کے مطابق مشترکہ بحری مشقوں میں پچاس ممالک کی بحری افواج شرکت کریں گی جبکہ مجموعی طور پر سات ہزار فوجی اور پینتیس بحری جہاز اور تیس بغیر انسان کے چلنے والے بحری جہاز یا ان سے متعلق اقسام کی ایجادات کی شرکت ہو گی۔ یہ مشقیں بحیرہ عرب، خلیج عمان، بحر ہند اور مشرقی افریقی ساحلی علاقوں میں انجام پذیر ہوں گی۔
واضح رہے کہ ان مشقوں کو IMX-2023کا نام دیا گیا ہے اور اس فورم کی ابتداء سنہ 2012ء سے کی گئی تھی۔ گذشتہ برس بھی اس طرح کی ہونے والی مشقوں میں ساٹھ ممالک کی بحری افواج نے مشترکہ مشقوں میں شرکت کی تھی۔ان مشقوں کے آغاز کے لئے مرکز بحرین کو منتخب کیا گیا ہے۔
سولہ اور سترہ مارچ سے غرب ایشیاء میں شروع ہونیوالی مشترکہ بحری مشقوں میں مسلم دنیا کے چیدہ چیدہ ممالک میں پاکستان سمیت سعودی عربیہ، یمن، مصر، تیونس، متحدہ عرب امارات، اردن، مراکش، قطر، اومان اور دیگر شامل ہیں جبکہ افریقی و یورپی ممالک سمیت امریکہ اوربرطانیہ بھی ان مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
جہاں ان مشقوں میں دنیا کی مختلف ریاستوں کی بحری افواج شریک ہو رہی ہیں وہاں فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے والی ناجائز ریاست اسرائیل کو بھی ان مشترکہ مشقوں کا حصہ بنایا گیا ہے اور سینٹ کام کی ویب سائٹ پر جاری تفصیلات میں پچاس ممالک کی فہرست میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو سب سے آخری نمبر پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے کہ عرب دنیا کے ان تمام ممالک کے لئے کہ جن کے نام درج بالا سطور میں تحریر کئے گئے ہیں، اسرائیل کی شرکت کوئی بڑی بات نہ ہو کیونکہ گذشتہ طویل مدت سے عرب دنیا کی حکومتوں نے امریکہ کی ایماء پر اسرائیل کو سہارا دینے کے لئے نارملائزیشن کی جو کوشش کی ہے تو ا ستناظر میں عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ مشترکہ مشقوں کا ہونا کوئی بعید نہیں ہے۔
پاکستان جو ایک نظریاتی مملکت ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے اور فلسطین پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ناجائز تسلط کو تسلیم نہیں کرتا ہے، پاکستان کیلئے ایسی مشترکہ مشقوں میں شرکت کرنا کہ جہاں اسرائیل بھی شریک ہو یقینا ایک سوال ہے۔پاکستان کیونکہ نظریہ اور اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادپر جب اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تو یہ پاکستان کا اختیار ہے کہ وہ ایسی مشترکہ مشقوں میں اسرائیل کی موجودگی پر اپنا نقطہ اعتراض پیش کرے یا پھر ایسی مشقوں میں شرکت سے گریز کرے کہ جہاں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ فلسطین پر قائم کی جانے والی یہودیوں کے لئے علیحدہ ریاست کی حیثیت اس طرح سے ہے کہ یہ ریاست مغرب کا ناجائز بچہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے اصولوں کی بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا اور اس نقطہ کو خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ تاہم انہی بنیادی اصولوں کی وجہ سے پاکستان آج تک اسرائیل کوتسلیم نہیں کرتا ہے اور امریکہ سمیت عرب دنیا کی جانب سے ہمیشہ پاکستان پر دباؤ رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے یا کم سے کم اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کئے جائیں لیکن پاکستان کی تمام حکومتوں نے ہمیشہ بابائے قوم ک نظریات اور آئین پاکستان کی پاسداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کیا ہے۔پاکستان کے عوام بھی اپنے محبوب قائد کے اصولوں کی پیروی کرتے ہیں اور اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست ہی تصور کرتے ہیں۔
گذشتہ دس سالوں میں کئی ایک عرب ممالک ہیں کہ جنہوں نے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہیں یہاں تک کہ کچھ اسرائیلی وفود نے تو سعودی عرب کے دورے بھی کئے ہیں لیکن تاحال سعودی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ تعلقات قائم نہیں کئے ہیں۔حالانکہ عرب دنیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل اپنی وہ حیثیت حاصل نہیں کر پارہا جو ہونی چاہئیے لہذا پاکستان کو نشانے پر رکھا گیا ہے اور پاکستان میں انارکی کو فروغ دے کر امریکہ اور اس کے عرب اتحادی اس مذموم کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل کے قریب کر دیا جائے۔
غرب ایشیاء میں ہونے والی عالمی مشترکہ بحری مشقوں میں اسرائیل کو دعوت دینے میں امریکی ناپاک عزائم واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ایک ایسی غاصب اور ناجائز ریاست کہ جس کا وجود ہی سوالیہ نشان ہو اور اس غاصب ریاست کی افواج نہ صرف فلسطین بلکہ لبنان، مصر، شام اور خطے کے دیگر ممالک میں بد امنی اور دہشتگردی کی موجب ہے۔ حتی کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی بحریہ نے امریکی بحری جہاز کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔ لہذا ایک ایسی ناجائز اور دہشت گردریاست کو مشترکہ مشقوں میں دعوت دینا امریکہ اور عرب دنیا کے حکمرانوں کی بد نیتی کو آشکار کر رہا ہے۔
گذشتہ برس بھی ایسی ہی ایک مشترکہ مشقوں میں یہ خبر سامنے آ چکی ہے کہ پاکستان مشترکہ مشقوں میں اسرائیل کی موجودگی میں موجود تھا جس پر پاکستان کے عوام میں شدید غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی تھی تاہم آج موجودہ پاکستان کے حالات میں کہ جب ایک طرف افواج پاکستان کے خلاف سنگین نوعیت کا پراپیگنڈا جاری ہے اور ایسے حالات میں اگر پاکستان بحریہ ایسی مشترکہ مشقوں میں شریک ہو جائیں کہ جہاں فلسطین پر قابض ایک غاصب اور ناجائز ریاست اسرائیل بھی شریک ہو تو یقینی طور پر جہاں ایک طرف آئین پاکستان اور نظریہ پاکستان کو دھچکا پہنچے گا وہاں ساتھ ساتھ افواج پاکستان کی ساکھ کو بھی بری طرح نقصان پہنچے گا۔
ایک طرف ملک معاشی اور سیاسی بد حالی کا شکار ہے تو دوسری طرف دشمن قوتوں کی جانب سے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعہ پاکستان کی افواج کو اسرائیل کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں شرکت کروا کر ملک میں مزید انارکی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ افواج پاکستان کے سربراہ اور سپہ سالار فی الفور اس سنجیدہ مسئلہ کا نوٹس لے کر آئندہ دنوں غرب ایشیاء میں ہونے والے ان مشترقہ بحری مشقوں سے اسرائیل کو نکالے جانے کا مطالبہ کریں اور اگر اسرائیل کو نہیں نکالاجاتا ہے تو یہ مشترکہ مشقیں کوئی ایسی ضروری نہیں ہیں کہ پاکستان کی شرکت لازم ہو تاہم پاکستان کے پاس اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ شرکت کرے یا نہ کرے تاہم شرکت سے انکار کرنا ہی بائیس کروڑ عوام کی امنگوں کی ترجمانی ہو گا اور پاکستان کے عزت اور وقار کی بلندی کا باعث بنے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان ایک نظریہ کی بنیادپر قائم ہے اور اگر یہ نظریہ ہی ختم کر دیا گیا تو پھر پاکستان کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی۔پاکستان کی سلامتی اور دفاع در اصل فلسطین کے دفاع اور بقاء کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔