تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
سات اکتوبر سن2023کوسرزمین فلسطین پر دنیا کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ رونما ہواہے جسے طوفان الاقصیٰ کا نام دیا گیاہے۔ یہ کس چیز کا طوفان تھا؟ یقینا جب بھی کوئی طوفان آتا ہے تو اس طوفان کی آمد کے ساتھ بربادی ہی آتی ہے۔ چاہے ہوا کا طوفان ہو یا سمندری طوفان ہو، تاریخی شواہد سے یہی علم ہوتا ہے کہ نتیجہ بربادی ہی ہے۔
سرزمین فلسطین پر آنے والے طوفان یعنی طوفان الاقصیٰ نے بھی ایسی ہی ایک بربادی کا آغاز کیا ہے لیکن یہ بربادی کیا ہے؟ کچھ سیاست دانوں اور مخصوص قسم کی سوچ رکھنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق یقینا طوفان الاقصیٰ نے تباہی اور بربادی کا آغاز کیا ہے لیکن ان سب کے بزدیک یہ بربادی خود فلسطینیوں کی ہے۔ کیونکہ اس طوفان کے آغاز کے بعد سے فلسطینیوں کی بڑی پیمانہ پر نسل کشی کی جا رہی ہے اور غاصب صیہونی حکومت مسلسل معصوم بچوں اور بزرگوں سمیت فلسطینیوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہی ہے اورسفاکیت کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ یقینا یہ ایک تباہی ہے۔ انسانی المیہ ہے۔ غزہ میں انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ عالمی برادری بھی خاموش ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ایک پہلو کو دیکھ کر اس بات پر یقین کر لیا جائے کہ واقعی یہ طوفان الاقصیٰ فلسطینی کی بربادی کا نتیجہ پیدا کر رہاہے؟
یہاں پر ایک اور رائے بھی سامنے ہے۔ یہ رائے پہلی رائے کی نسبت کچھ زیادہ قوی اور منطقی نظر آتی ہے۔ یعنی سات اکتوبر سے پہلے کی دنیا کا مشاہدی کیا جائے تو بہت سی ایسی نشانیاں اور مشاہدات سامنے آتے ہیں جس میں واضح ہوتا ہے کہ مغربی استعماری حکومتیں ایشیائی ممالک بالخصوص جنوبی ایشیاء اور مغربی ایشیاء میں اپنے اثر ونفوذ کو بڑھانے کے لئے یہاں معاشی، سیاسی اور فوجی کنٹرول حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھیں۔ اس کنٹرول کو حاصل کرنے کی ایک وجہ ایشیائی ممالک میں چین کا بڑھتا ہوا معاشی اثر و نفوز ہے جس نے مغربی استعماری حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نہ صرف ایشیائی ممالک بلکہ افریقا میں بھی چین کی بڑھتی ہوئی معاشی مقبولیت کو روکنا استعماری حکومتوں امریکہ وبرطانیہ کے بس کی بات نہیں رہاہے۔
ایشیائی ممالک میں امریکی ومغربی اثر وبفوذ کو بڑھانے کے لئے استعماری حکومتیں سرگرم تھیں۔ خاص طور پر مغرب ایشیائی ممالک کو کنٹرول کرنے اور خطے میں بالخصوص مسلمان ممالک کی معاشی، سیاسی اور فوجی قوت کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تسلط قائم رکھنے کے لئے ایک نیا نقشہ سات اکتوبر سے کچھ عرصہ قبل تشکیل دیا گیا تھا جس کے مطابق ایشیائی ممالک میں موجود مسلمان ممالک پر ایک خاص طریقہ سے تسلط کا جال ڈالنا تھا لیکن اسی دوران ہی سات اکتوبر کو فلسطینیوں نے اپنی آزادی کے لئے ایک ایسا طوفان شروع کیا جسے طوفان الاقصیٰ کہا جاتا ہے کہ جس نے ایک طرف مغربی ممالک کی ناجائز اولاد اسرائیل کو شکست سے دوچار کیا اور خطے میں سیاسی منظر نامہ اور منفی سازشوں کو بروئے کار لانے سے دور کر دیاتو دوسری جانب پوری مغربی دنیا کی حکومتوں کے نئے منصوبہ اور نقشوں کو برباد کر کے رکھ دیا۔
یہی وجہ تھی کہ ساتھ اکتوبر کے بعد امریکہ، برطانیہ،فرانس اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں کھلم کھلا غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کی پشت پناہی کے لئے سرگرم ہو گئیں اور تاحال غاصب اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں تاکہ ان کے اپنے منصوبہ کو تحفظ حاصل ہو سکے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ نے امریکہ اور مغربی حکومتوں کے ان تمام ناپاک عزائم اور منصوبوں کو خاک میں ملا کررکھ دیا ہے جو ایشیائی ممالک بالخصوص ایشیاء میں مسلمان ممالک کے خلاف تیار کئے گئے تھے۔
فلسطینیوں نے عالمی سیاسی منظر نامہ پر ایک نیا نقش چھوڑ دیا ہے جسے آج آٹھ ماہ گزر جانے کے باجود مغربی دنیا کی حکومتیں مٹانے سے قاصر ہیں۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ جس کی طرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے حال ہی میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی ؒ کی پینتسویں برسی کی مناسبت سے اپنے خطاب میں بھی کیا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کے اس طوفان الاقصیٰ کی بدولت مغربی حکومتوں کے منصوبوں کی ناکامی کے بارے میں کہاکہ نہیں معلوم کہ طوفان الاقصیٰ شروع کرنے والے یہ بات جانتے تھے کہ دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کے لئے امریکی اور مغربی حکومتوں کے عزائم کیا ہیں؟ لیکن واقعی فلسطینیوں نے ایک بہت ہی اہم اور بہت بڑا کام انجام دیا ہے یعنی طوفان الاقصیٰ کہ جس نے مغربی حکومتوں کے منصوبوں کو برباد کر دیاہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے اس طوفان نے جو بربادی پیدا کی ہے وہ دراصل فلسطینیوں کے لئے نہیں ہے بلکہ خود امریکہ اور مغربی حکومتوں کے لئے ہے اور یہ بربادی ہم سب مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مغربی دنیا میں عوام کی بیداری کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں طلباء اور اساتذہ کی بیداری بھی طوفان اقصیٰ کے نتائج کا حصہ ہے