انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل کے روز کہا ہے کہ گذشتہ ماہ غزہ پر کیے گئے اسرائیلی حملے ‘جنگی جرم’ کے زمرے میں آسکتے ہیں اور کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار گروہوں کے خلاف راکٹ فائر کرنے کے الزام کی بھی تحقیقات کی جانا چاہیے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج اور جہادِاسلامی نے 9 سے 13 مئی تک ایک دوسرے پر شدید فائرنگ کی تھی جس میں عام شہریوں اور مزاحمت کاروں سمیت 35 فلسطینی شہید اور ایک سو سے زاید زخمی ہوگئے تھے۔ لندن میں قائم انسانی حقوق کے گروپ نے الزام عاید کیا ہے کہ اسرائیلی حملے “فوجی ضرورت کے بغیر” “شہری آبادی کے خلاف اجتماعی سزا کی ایک شکل” کے مترادف ہیں۔بیان میں فلسطینی مزاحمتی گروہوں پر اسرائیل کو نشانہ بنانے کے لیے اندھا دھند راکٹ فائر کرنے کا بھی الزام عاید کیا گیا ہے جس کی ’جنگی جرائم‘ کے طور پر بھی تحقیقات کی جانی چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں 2943 رہائشی یونٹوں کو نقصان پہنچا ہے۔ان میں 103 مکانات بھی شامل ہیں جو مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے بظاہر غیر متناسب فضائی حملے کیے جن میں بچوں سمیت فلسطینی شہری مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ یہ ایک جنگی جرم ہے۔
2007ءمیں فلسطینی جماعت حماس کے غزہ پر کنٹرول کے کے بعد سے اسرائیل اور غزہ سے تعلق رکھنے والے مزاحمتی گروپوں نے متعدد جنگیں لڑی ہیں۔اسرائیلی فوج کے مطابق جنگ بندی کے نفاذ سے قبل 10 سے 13 مئی تک غزہ سے اسرائیل کی جانب 1230 سے زیادہ راکٹ داغے گئے تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مشرقِ اوسط اور شمالی افریقا کی ریجنل ڈائریکٹر ہیبا مورائف نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف بار بار کیے جانے والے جنگی جرائم اور غزہ کی پٹی کی 16 سالہ غیر قانونی ناکا بندی کی وجہ سے مزید خلاف ورزیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ناانصافی کو دائمی بنا دیا جاتا ہے۔
فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے ترجمان نے ایمنسٹی کی اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتا ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم اسرائیل کے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم پراپنا دفاع کرنے کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ اسرائیل، امریکا اور یورپی یونین نے جہاداسلامی کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔
غزہ کی پٹی میں قریباً 23 لاکھ فلسطینی رہتے ہیں جو حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اسرائیل کی جبری بری ، بحری اور فضائی ناکا بندی کا شکار ہے۔