غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے واضح الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ اگر قابض اسرائیل نے غزہ میں جاری انسانیت سوز نسل کشی نہ روکی تو برطانیہ اس کے خلاف اضافی اقدامات اٹھائے گا۔
منگل کے روز برطانوی پارلیمنٹ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے ڈیوڈ لیمی کا کہنا تھا کہ “غزہ کی موجودہ صورت حال ناقابل برداشت ہو چکی ہے، اب فوری طور پر جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنا انتہائی ضروری ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جنگ بندی کی کوششیں ناکام ہوئیں اور غزہ میں ظلم و جبر کا سلسلہ جاری رہا تو برطانوی حکومت قابض اسرائیل کے خلاف مزید اقدامات کرے گی۔ تاہم انہوں نے ان ممکنہ اقدامات کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔
اس سے قبل 20 مئی کو برطانیہ نے قابض اسرائیل کے ساتھ نئی تجارتی معاہدے پر ہونے والی بات چیت معطل کر دی تھی، جو بین الاقوامی دباؤ کا ایک عملی مظہر تھا۔
واضح رہے کہ سنہ2023ء کے 7 اکتوبر سے اب تک قابض اسرائیل امریکہ کی کھلی سرپرستی میں غزہ میں مکمل نسل کشی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس درندگی میں ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے، جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں، خواتین اور بزرگوں کی ہے۔ قابض ریاست نہ صرف قتل عام کر رہی ہے بلکہ اجتماعی بھوک، طبی سہولیات کی بندش، گھروں کی مسماری اور جبری نقل مکانی جیسے جرائم بھی مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔
بین الاقوامی عدلیہ اور اقوام متحدہ سمیت مختلف عالمی ادارے کئی بار جنگ بندی کا مطالبہ کر چکے ہیں مگر قابض اسرائیل نے ان تمام مطالبات کو یکسر نظرانداز کر رکھا ہے۔ فلسطینیوں کی بستیوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے اور غزہ ایک زندہ لاش کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
اب تک اس نسل کشی میں 1 لاکھ 94 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، 10 ہزار سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں، لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں اور بھوک کے باعث درجنوں بچے موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔
برطانیہ کا یہ موقف اگرچہ ایک مثبت پیش رفت ہے، مگر وقت کی ضرورت یہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں محض الفاظ پر اکتفا کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں تاکہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے یہ مظالم بند کیے جا سکیں اور ان مظلوم انسانوں کو جینے کا حق مل سکے۔