Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ کو ہسپتالوں، سکولوں اور تعلیم سے محروم کر کے بربادی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا گیا

غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل کی جانب سے سنہ2023ء کے 7 اکتوبر سے غزہ پر مسلط کی گئی ہمہ گیر جنگ نے اس نہتے علاقے کو مکمل تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ اس نسل کشی پر مبنی حملے میں ہسپتالوں اور سکولوں جیسے انسانی بقا کے بنیادی ادارے بھی بدترین نشانے پر ہیں۔ ان اہم تنصیبات کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے، جو عالمی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان قوانین کے تحت ہسپتال، سکول اور دیگر سول ڈھانچے جنگی حالات میں بھی محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔

ان مہینوں میں قابض اسرائیل کی طرف سے اپنائی گئی منظم پالیسی یہ ثابت کرتی ہے کہ فلسطینی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے اداروں کو تباہ کر کے نہ صرف اجتماعی حوصلہ توڑا جا رہا ہے بلکہ لوگوں کو بقا کی بنیادی سہولیات سے محروم کر کے علاقے کو غیر قابل رہائش بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ جبری ہجرت اور آبادی کو خالی کروانے کے مجرمانہ منصوبے کا حصہ ہے۔

غزہ کے درجنوں ہسپتال قابض اسرائیلی حملوں، ایندھن کی بندش اور طبی سامان کی کمی کے باعث مکمل یا جزوی طور پر بند ہو چکی ہیں، جب کہ سینکڑوں سکولوں کو یا تو براہ راست نشانہ بنایا گیا ہے، یا انہیں عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں انسانی زندگی کے لیے بنیادی شرائط بھی میسر نہیں۔

اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس اس امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ تعلیم اور علاج جیسی انسانی ضروریات کو بھی جنگی ہتھیار بنا دیا گیا ہے، بغیر اس کے کہ ان اداروں کے عسکری استعمال کا کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہو۔

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں محض 16 ہسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں، جن میں پانچ سرکاری اور گیارہ نجی ہیں، جب کہ کل تعداد 38 تھی۔ اس کے علاوہ آٹھ فیلڈ ہسپتال بھی ایمرجنسی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔

22 مئی کو جاری عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے اب تک قابض اسرائیلی افواج نے غزہ میں ہسپتالوں اور طبی مراکز پر 697 حملے کیے۔

اب صرف 17 ہسپتال ایسے بچے ہیں جو کسی نہ کسی حد تک اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جن میں بھی اکثر صرف بنیادی ایمرجنسی خدمات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جبکہ 94 فیصد ہسپتال جزوی یا مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ شمالی اور جنوبی غزہ میں جاری حملوں کے باعث مزید طبی مراکز بند ہونے کے قریب ہیں، جن میں ایک ہسپتال، 11 بنیادی طبی مراکز، 13 طبی نکات، ایک فیلڈ ہسپتال اور دیگر 5 ہسپتال شامل ہیں۔

غزہ کے اہم ترین ہسپتال، جن میں کمال عدوان، انڈونیشین، حمد اور یورپی ہسپتال شامل ہیں، مئی میں قابض اسرائیل کی بمباری کی زد میں آ کر خدمات سے محروم ہو چکے ہیں، صرف ایک ہفتے میں ان پر 28 بار حملے کیے گئے۔

شمالی غزہ ہسپتالوں سے مکمل خالی کر دیا گیا

شمالی غزہ میں تقریباً تمام ہسپتال یا تو بند ہو چکے ہیں یا محدود خدمات دے رہے ہیں۔ انڈونیشین ہسپتال پر قابض فوج کا تسلط ہے اور کمال عدوان ہسپتال 20 مئی کو بند ہو چکا ہے۔ اس ہسپتال میں غذائی قلت کے شکار بچوں کا علاج ہوتا تھا، جو اب ممکن نہیں رہا۔

غزہ کے وسطی اور جنوبی علاقے جیسے خان یونس کے ناصر، الأمل اور الأقصى ہسپتال زخمیوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔ یورپی ہسپتال اب بھی بند ہے اور دماغی جراحی، دل کی نگہداشت اور سرطان کے علاج جیسی اہم سہولتیں ختم ہو چکی ہیں۔

کمال عدوان ہسپتال، جو غذائی قلت کے شکار بچوں کا واحد مرکز تھا، اب مکمل بند ہے، جب کہ ناصر اور الأمل ہسپتالوں کے داخلے کے تمام راستے بند کرنے کی اطلاع قابض اسرائیلی انتظامیہ نے وزارت صحت کو دے دی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق، غزہ کی 20 لاکھ آبادی کے لیے اب صرف 2000 بستر باقی ہیں، جن میں سے 850 بستر کسی بھی لمحے ضائع ہو سکتے ہیں۔ ناصر اور الأمل ہسپتالوں کی ممکنہ بندش سے بستر کی تعداد مزید 40 فیصد کم ہو جائے گی۔

تعلیم بھی نسل کشی کی بھینٹ چڑھ گئی

فلسطینی وزارت تعلیم کی رپورٹ کے مطابق، سنہ2023ء کے بعد سے اب تک 16 ہزار 470 طالب علم شہید ہو چکے ہیں، جب کہ 25 ہزار 374 زخمی ہیں۔

اساتذہ بھی اس ظلم سے نہ بچ سکے۔ 914 اساتذہ اور تعلیمی عملے کے افراد شہید، جبکہ 4363 زخمی ہوئے۔

352 سرکاری سکول شدید متاثر ہوئے، جن میں سے 111 مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے۔ 91 سرکاری، 89 اقوام متحدہ کے تحت چلنے والے سکولوں اور 20 اعلیٰ تعلیمی ادارے نشانہ بنے، جن میں 60 عمارتیں مکمل طور پر ملبے میں تبدیل ہو گئیں۔

مغربی کنارے کے علاقوں میں بھی تعلیمی ادارے نشانہ بنے۔ 152 سکول اور 8 جامعات میں گھس کر تخریب کاری کی گئی۔ جنین، طولکرم، بروقین اور کفر الدیک کے سکولوں کی دیواریں گرائی گئیں۔

788,000 طالب علم آج بھی اپنی تعلیم سے محروم ہیں، اور مسلسل دوسرے سال دسویں جماعت کے طالب علم امتحانات سے بھی محروم ہیں۔

فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے مطابق، 95.2 فیصد سکول کسی نہ کسی درجے میں نقصان کا شکار ہیں، اور 88.5 فیصد کو مکمل دوبارہ تعمیر یا بڑے پیمانے پر مرمت کی ضرورت ہے۔

نسل کشی کا ہولناک انجام

قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ کا مکمل محاصرہ، امدادی سامان، خوراک، ادویات اور ایندھن کی بندش، انسانیت سوز المیے کو جنم دے چکی ہے۔

7 اکتوبر 2024 سے شروع ہونے والی امریکی حمایت یافتہ قابض اسرائیل کی جنگ میں اب تک 185 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔ 11 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، جبکہ سینکڑوں بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ لاکھوں افراد زبردستی نقل مکانی پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan