غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے دنیا کے باضمیر انسانوں، اقوام متحدہ کے اداروں، سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں جاری بےرحمانہ نسل کشی روکنے اور ظالمانہ محاصرے کے خاتمے کے لیے فوری، مؤثر اور عملی اقدامات کریں، تاکہ انسانی امداد کو کسی بھی شرط کے بغیر غزہ کے مظلوموں تک پہنچایا جا سکے۔
پیر کے روز جاری کردہ ایک پریس بیان میں حماس نے عرب اور اسلامی دنیا سے فوری متحرک ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے زور دیا کہ جو ممالک قابض اسرائیل سے تعلقات رکھتے ہیں وہ ان تعلقات کو منقطع کریں، سفیروں کو واپس بلائیں اور سیاسی، سفارتی اور معاشی دباؤ کے تمام ذرائع کو استعمال میں لائیں تاکہ اس جارحیت کو روکا جا سکے۔
بیان میں کہا گیا کہ قابض صہیونی دشمن غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف منظم نسل کشی کی بدترین وارداتیں انجام دے رہا ہے۔ آج صبح بھی اس نے ایسے مہاجر خاندانوں کو نشانہ بنایا جو اپنے گھروں سے نکالے جانے کے بعد پناہ گاہوں میں سکون تلاش کر رہے تھے۔ ان مجرمانہ حملوں کے نتیجے میں درجنوں معصوم فلسطینی شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔ بعض کی لاشیں ناقابل شناخت اور جھلس چکی تھیں، جو اس ظلم کی شدت کی گواہ بن چکی ہیں۔
بیان میں زور دیا گیا کہ صہیونی سفاکیت اور درندگی اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ اب وہ سکولوں اور شہری گھروں کو بھی معاف نہیں کر رہا۔ آج صبح الدرج کے علاقے میں واقع فہمی الجرجاوی سکول اور مشرقی جبالیا میں عبدربہ خاندان کے گھر پر بمباری اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل “جلاؤ زمین” کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کا ہدف غزہ کو انسانی وجود سے خالی کرنا ہے تاکہ فلسطینیوں کی سرزمین کو ان سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا جائے۔
بیان میں اس امر پر شدید تشویش ظاہر کی گئی کہ قابض اسرائیل آج بھی اس بھیانک جرم کی ذمے داری سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں النجار خاندان کے 9 معصوم بچوں کو شہید کیا گیا۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے کے متعلق اس کے پاس کوئی معلومات نہیں اور محض ایک “تحقیقات” کا بہانہ بنا کر سچائی کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ماضی کے تمام تجربات گواہ ہیں کہ ان کی تحقیقات ایک دکھاوا ہوتی ہیں، جن کا مقصد اور صرف مجرم کو تحفظ دینا ہوتا ہے۔
حماس نے کہا کہ ان گھناؤنی وارداتوں کا تسلسل صہیونی حکومت کے فاشسٹ چہرے کو بےنقاب کرتا ہے جو عالمی خاموشی اور قانونی و اخلاقی جواب دہی کے فقدان کا فائدہ اٹھا کر انسانی حقوق کو روند رہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ نہ کوئی اسے روکے گا،نہ پکڑے گا اور نہ انصاف کی دہائی دینے والے کانوں میں آواز جائے گی۔
بیان میں عرب اور مسلمان ممالک کی سرد مہری اور زبانی جمع خرچ پر مبنی بزدلانہ پالیسیوں پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اب تک یہ حکومتیں اپنے بیانات سے آگے نہیں بڑھیں جب کہ غزہ کا ہر گوشہ، ہر بچہ، ہر ماں چیخ چیخ کر مدد مانگ رہی ہے۔
حماس نے یاد دلایا کہ 7 اکتوبر 2023ء سے امریکہ کے مکمل تعاون سے قابض اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی بدترین جنگ چلا رہا ہے۔ اب تک ایک لاکھ 76 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ اس کے علاوہ گیارہ ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ان لاشوں کو نکالنے کا کوئی انتظام بھی نہیں۔
غزہ — مرکزاطلاعات فلسطین
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے دنیا کے باضمیر انسانوں، اقوام متحدہ کے اداروں، سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں جاری بےرحمانہ نسل کشی روکنے اور ظالمانہ محاصرے کے خاتمے کے لیے فوری، مؤثر اور عملی اقدامات کریں، تاکہ انسانی امداد کو کسی بھی شرط کے بغیر غزہ کے مظلوموں تک پہنچایا جا سکے۔
پیر کے روز جاری کردہ ایک پریس بیان میں حماس نے عرب اور اسلامی دنیا سے فوری متحرک ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے زور دیا کہ جو ممالک قابض اسرائیل سے تعلقات رکھتے ہیں وہ ان تعلقات کو منقطع کریں، سفیروں کو واپس بلائیں اور سیاسی، سفارتی اور معاشی دباؤ کے تمام ذرائع کو استعمال میں لائیں تاکہ اس جارحیت کو روکا جا سکے۔
بیان میں کہا گیا کہ قابض صہیونی دشمن غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف منظم نسل کشی کی بدترین وارداتیں انجام دے رہا ہے۔ آج صبح بھی اس نے ایسے مہاجر خاندانوں کو نشانہ بنایا جو اپنے گھروں سے نکالے جانے کے بعد پناہ گاہوں میں سکون تلاش کر رہے تھے۔ ان مجرمانہ حملوں کے نتیجے میں درجنوں معصوم فلسطینی شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔ بعض کی لاشیں ناقابل شناخت اور جھلس چکی تھیں، جو اس ظلم کی شدت کی گواہ بن چکی ہیں۔
بیان میں زور دیا گیا کہ صہیونی سفاکیت اور درندگی اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ اب وہ سکولوں اور شہری گھروں کو بھی معاف نہیں کر رہا۔ آج صبح الدرج کے علاقے میں واقع فہمی الجرجاوی سکول اور مشرقی جبالیا میں عبدربہ خاندان کے گھر پر بمباری اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل “جلاؤ زمین” کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کا ہدف غزہ کو انسانی وجود سے خالی کرنا ہے تاکہ فلسطینیوں کی سرزمین کو ان سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا جائے۔
بیان میں اس امر پر شدید تشویش ظاہر کی گئی کہ قابض اسرائیل آج بھی اس بھیانک جرم کی ذمے داری سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں النجار خاندان کے 9 معصوم بچوں کو شہید کیا گیا۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے کے متعلق اس کے پاس کوئی معلومات نہیں اور محض ایک “تحقیقات” کا بہانہ بنا کر سچائی کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ماضی کے تمام تجربات گواہ ہیں کہ ان کی تحقیقات ایک دکھاوا ہوتی ہیں، جن کا مقصد اور صرف مجرم کو تحفظ دینا ہوتا ہے۔
حماس نے کہا کہ ان گھناؤنی وارداتوں کا تسلسل صہیونی حکومت کے فاشسٹ چہرے کو بےنقاب کرتا ہے جو عالمی خاموشی اور قانونی و اخلاقی جواب دہی کے فقدان کا فائدہ اٹھا کر انسانی حقوق کو روند رہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ نہ کوئی اسے روکے گا،نہ پکڑے گا اور نہ انصاف کی دہائی دینے والے کانوں میں آواز جائے گی۔
بیان میں عرب اور مسلمان ممالک کی سرد مہری اور زبانی جمع خرچ پر مبنی بزدلانہ پالیسیوں پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اب تک یہ حکومتیں اپنے بیانات سے آگے نہیں بڑھیں جب کہ غزہ کا ہر گوشہ، ہر بچہ، ہر ماں چیخ چیخ کر مدد مانگ رہی ہے۔
حماس نے یاد دلایا کہ 7 اکتوبر 2023ء سے امریکہ کے مکمل تعاون سے قابض اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی بدترین جنگ چلا رہا ہے۔ اب تک ایک لاکھ 76 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ اس کے علاوہ گیارہ ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ان لاشوں کو نکالنے کا کوئی انتظام بھی نہیں۔