غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ میں قابض اسرائیل کی درندگی، نسل کشی اور مکمل تباہی کی جنگ کو آج 622 دن ہو چکے ہیں۔ یہ جنگ صرف زمینوں پر قبضے کی نہیں بلکہ انسانوں، خوابوں، امیدوں اور نسلوں کو مٹانے کی کھلی سازش ہے، جس میں قابض اسرائیل کو امریکہ کی سیاسی اور عسکری پشت پناہی حاصل ہے، جبکہ پوری دنیا بے حسی کی چادر اوڑھے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
قابض اسرائیلی فوج نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب سے لے کر اب تک درجنوں فضائی اور زمینی حملے کیے، جن میں درجنوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
طبی ذرائع کے مطابق، گزشتہ روز سے اب تک 69 نہتے شہری قابض اسرائیلی گولہ باری کا نشانہ بنے، جن میں 29 فاقہ کشی کے مارے امریکی امداد کی تلاش میں نام نہاد امدادی مراکز کے قریب کھڑے تھے اور ان پر بھی قابض اسرائیل نے بے دردی سے بمباری کی۔
غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ سات اکتوبر سنہ2023ء سے جاری قتل عام میں شہداء کی تعداد 55 ہزار 637 ہو چکی ہے، جب کہ زخمیوں کی مجموعی تعداد 1 لاکھ 29 ہزار 880 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان شہداء میں 400 سے زائد وہ مظلوم لوگ ہیں جو محض روٹی کے ایک ٹکڑے کی تلاش میں نکلے تھے۔
قابض اسرائیل نے جمعرات کو بھی غزہ شہر کے مشرقی علاقوں پر توپ خانے سے شدید گولہ باری کی، جبکہ جبالیہ کے مشرق میں شہری گھروں کو بارود سے اُڑا دیا۔ ایک کے بعد ایک محلہ صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا، اور بچوں، عورتوں، بزرگوں کو ملبے تلے دفن کر دیا گیا۔
نصیرات کے علاقے میں واقع الشفاء ہسپتال کی شاخ، العودہ ہسپتال نے بتایا کہ وادی غزہ کے جنوبی علاقے میں صلاح الدین روڈ پر امداد کے منتظر فلسطینیوں کے ایک بڑے گروپ پر قابض اسرائیل نے وحشیانہ بمباری کی، جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی شہید اور 15 شدید زخمی ہو گئے۔
اسی طرح شہر غزہ کے شمال مغربی علاقے میں واقع “گولڈن سیلون” کے قریب سے شہری دفاع کی ٹیموں نے گذشتہ چند دنوں سے لاپتا 15 شہداء کی لاشیں نکالیں، جو امداد کے منتظر تھے اور جنہیں قابض اسرائیل نے بغیر کسی وجہ کے قتل کر دیا تھا۔
قابض اسرائیل نے شمالی غزہ میں فائر بریگیڈ کے ایک کارکن، شفیق نافذ اسلیم کو بھی اس وقت شہید کر دیا جب وہ امدادی کاموں میں مصروف تھے۔ یہ شہادت نہ صرف ایک جان کا ضیاع ہے، بلکہ ایک پوری نسل کی امید، ایک بیٹے کا سایہ، ایک باپ کا سہارا چھین لیا گیا۔
وسطی غزہ کے علاقے الزوایدہ میں قابض اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایک سولر آئل کے مقامی کارخانے کو بھی نشانہ بنایا، جس سے علاقے میں توانائی کا بحران مزید شدت اختیار کر گیا۔