غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) یورو-میڈیٹیرین ہیومیٹیرین رائٹس مانیٹر”یورومیڈ” نے ایک چشم کشا رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی 21 ماہ سے جاری نسل کشی کے بعد غزہ کے فلسطینیوں کے لیے بچی ہوئی زمین کی گنجائش اس حد تک سکڑ چکی ہے کہ اب ہر فرد کو جو جگہ دستیاب ہے وہ امریکہ کے بدنام زمانہ عقوبت خانے گوانتانامو میں قید ایک قیدی کو ملنے والی جگہ سے بھی کم ہے۔
ادارے کے مطابق دو ملین 30 ہزار فلسطینیوں کو محض 55 مربع کلومیٹر کے تنگ، محصور اور مسلسل بمباری کا نشانہ بننے والے علاقے میں دھکیل دیا گیا ہے، جہاں ایک فرد کو اوسطاً 24 مربع میٹر سے بھی کم جگہ دستیاب ہے۔ یہ صورتحال ایک ناقابلِ تصور قید خانے جیسی ہے جہاں انسانوں کو پانی، خوراک، علاج، پناہ، یہاں تک کہ سانس لینے کی آزادی تک میسر نہیں۔
یورومیڈ کی منگل کو جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ تنگ علاقہ جس میں فلسطینیوں کو قید کر دیا گیا ہے، قابض اسرائیل کی دانستہ نسل کشی کی پالیسی کا حصہ ہے، جس کا مقصد فلسطینی قوم کو اس کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکنا، ان کی موجودگی کو ختم کرنا اور غزہ کو ایک انسانی قبرستان میں بدل دینا ہے۔
ادارے نے واضح کیا کہ غزہ اب محض بمباری یا قتل کا ہدف نہیں بلکہ مکمل مٹانے کی مہم کا شکار ہے۔ اسرائیل نے 85 فیصد رقبے کو یا تو غیر قانونی فوجی کنٹرول میں لے لیا ہے یا جبری انخلاء کے احکامات کے ذریعے اسے ممنوعہ قرار دے دیا ہے۔ فلسطینی عوام کو منظم انداز میں ان کی زمینوں، بستیوں، گلیوں، سکولوں، ہسپتالوں، مساجد، بازاروں، اور یہاں تک کہ ان کی یادوں سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں غزہ کی گنجان آبادی دنیا کی کسی بھی معروف بستی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بعض علاقوں جیسے “المواصی” میں آبادی 47 ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ محض اعداد نہیں بلکہ جاری انسانیت سوز جرم کا عکس ہیں۔
ادارے نے نشاندہی کی کہ فلسطینیوں کو بار بار ان کے علاقوں سے نکال کر نام نہاد “انسانی اور محفوظ علاقوں” کی طرف دھکیلا جاتا ہے، جو درحقیقت موت کے نئے پھندے ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی اجتماعی مطاردہ ہے جو نہ صرف ان کی زندگی چھین رہی ہے بلکہ ان کی روح کو بھی روند ڈالتی ہے۔
ادارے کے مطابق ہر فلسطینی خاندان کو کم از کم پانچ سے دس بار جبری نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے، لیکن غزہ کا کوئی ایک علاقہ بھی ایسا نہیں بچا جسے محفوظ کہا جا سکے۔ بجلی، پانی، خوراک، صحت، تعلیم کچھ بھی میسر نہیں۔ فضا میں مایوسی، سڑکوں پر بیماریاں، اور دلوں میں خوف کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔
یورومیڈ نے دو ٹوک کہا کہ یہ صورتحال محض نقل مکانی نہیں بلکہ دانستہ اور طویل المدت نسل کشی کی پالیسی ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کے وطن سے مکمل طور پر بے دخل کر دینا ہے۔ یہ نہ تو جنگ کی وقتی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی حفاظتی اقدام، بلکہ یہ ایک مجرمانہ حکمت عملی ہے جس کے تحت فلسطینیوں کو زمین سے مٹایا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سنہ2025ء کے آغاز تک قابض اسرائیل نے غزہ کی 92 فیصد سے زیادہ رہائشی عمارات تباہ کر دیں، 80 فیصد سے زائد سکول اور 90 فیصد ہسپتال یا تو مکمل تباہ ہو چکے ہیں یا ناقابل استعمال ہیں۔ تمام یونیورسٹیاں صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ محلے، قصبے، بازار اور بستیاں گویا کبھی وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔
اسرائیلی قابض فوج اس قدر بے رحم ہو چکی ہے کہ وہ عمارتوں کے ملبے کو بھی غزہ سے ہٹا کر اسرائیل منتقل کر رہی ہے تاکہ فلسطینی کسی صورت واپس نہ لوٹ سکیں۔ یہ جرم نہ صرف بین الاقوامی قانون بلکہ انسانیت کی روح کے بھی منافی ہے۔
یاد دہانی کے طور پر جنیوا کنونشن کی شق 49 واضح کرتی ہے کہ قابض طاقت کسی بھی فرد یا گروہ کو جبراً ان کے علاقے سے منتقل نہیں کر سکتی، سوائے اس کے کہ اُن کی جان کو شدید خطرہ ہو، اور ایسی صورت میں بھی انہیں واپس ان کے اصل گھروں میں لانا لازم ہے۔
غزہ کی صورت حال اس قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ نہ صرف یہ کہ کوئی عسکری مجبوری موجود نہیں، بلکہ فلسطینیوں کو دانستہ طور پر پناہ، خوراک، دوا، حتیٰ کہ واپسی کی امید سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ یہی نہیں، عوامی سطح پر بھی ایسی باتیں کہی جا رہی ہیں جو فلسطینیوں کو مکمل مٹانے کے ارادے کو عیاں کرتی ہیں۔
جب جبری نقل مکانی قتل عام، بھوک، بیماری اور واپسی پر پابندی کے ساتھ جُڑ جائے، تو یہ بلاشبہ نسل کشی کہلاتی ہے۔ یورومیڈ نے واضح کیا کہ اسرائیل کی پالیسی کا ہر جزو – خواہ وہ جبری انخلاء ہو، وسیع پیمانے پر قتل ہو، یا جان بوجھ کر زندگی کی بنیادی سہولتوں کا خاتمہ – سب مل کر نسل کشی کے مکمل خدوخال ظاہر کرتے ہیں۔
ادارے نے زور دیا کہ اسرائیل کی یہ مجرمانہ پالیسی ایک طے شدہ مرحلے کی تکمیل ہے، جس کا مقصد صرف ایک ہے۔ فلسطینیوں کا اجتماعی اخراج اور غزہ کو ان کے وجود سے مکمل طور پر پاک کرنا۔ 21 ماہ کی مسلسل درندگی میں 2 لاکھ سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، درجنوں بستیاں مکمل طور پر نیست و نابود ہو چکی ہیں، اور بقیہ عوام زندگی کی آخری سانسوں پر ہیں۔
یہ سب کچھ درحقیقت اسرائیل کی نوآبادیاتی توسیع پسندی کا تسلسل ہے، جو دہائیوں سے فلسطینی سرزمین پر قابض ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج یہ منصوبہ کھلے عام، وسیع تر دائرے میں اور زیادہ خطرناک انداز میں عمل میں لایا جا رہا ہے۔
یورومیڈ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سچ کو تسلیم کرے کہ یہ صرف انخلاء نہیں بلکہ ایک پوری قوم کے وجود کو مٹانے کا منصوبہ ہے۔ اب صرف مذمت کافی نہیں بلکہ فوری اور فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے تاکہ فلسطینیوں کو ان کے مکمل فنا سے بچایا جا سکے۔
ادارے نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ انسانی ہمدردی، قانون اور ضمیر کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے، قابض اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اٹھائیں۔ اس میں جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیلی رہنماؤں پر عالمی وارنٹ جاری کرنا، ان کے اثاثے منجمد کرنا، اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنا، اور تمام عسکری، سیاسی اور تجارتی تعاون کو فوری طور پر معطل کرنا شامل ہے۔
علاوہ ازیں یورومیڈ نے عالمی برادری سے غزہ کی تعمیر نو، صحت و تعلیم کے نظام کی بحالی، بنیادی سہولتوں کی فراہمی، اور غزہ کے شہریوں کو باوقار زندگی کی ضمانت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اسرائیلی ناکہ بندی کا مکمل خاتمہ، خوراک، دوا، ایندھن کی ترسیل، اور آزاد انسانی راہداریوں کی بحالی کو ترجیحی بنیادوں پر نافذ کرنا ضروری قرار دیا ہے۔