غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ تباہ کن جنگ کو روکنے کے حوالے سے مسلسل بیانات اور دعوؤں کے درمیان امریکہ کی جانب سے ایک نیا سیزفائر منصوبہ پیش کیے جانے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، جو ثالثی کے لیے قطر اور مصر کو سونپا گیا ہے تاکہ وہ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سامنے رکھیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر اعلان کیا کہ قابض اسرائیل 60 روز کے لیے جنگ بندی پر رضامند ہو چکا ہے اور اس حوالے سے ایک حتمی تجویز مصر اور قطر کے ذریعے حماس کو پیش کی جائے گی۔ ٹرمپ نے کہاکہ “امید ہے کہ حماس اس معاہدے کو قبول کرے گی، کیونکہ اس کے بعد حالات مزید خراب ہوں گے”۔
ادھر اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے کہا ہے کہ وہ اس تجویز پر انتہائی سنجیدگی اور قومی ذمہ داری کے ساتھ غور کر رہی ہے اور تمام فلسطینی دھڑوں سے مشاورت کی جا رہی ہے تاکہ ایسے معاہدے تک پہنچا جا سکے جو جارحیت کے خاتمے، قابض افواج کے انخلاء، اور فوری انسانی امداد کی فراہمی کی ضمانت دے۔
حماس نے مزید کہا کہ ثالث بھرپور کوشش کر رہے ہیں تاکہ فریقین کے درمیان فاصلے کم کیے جا سکیں اور سنجیدہ مذاکرات کی بنیاد پر ایک عبوری معاہدے تک پہنچا جا سکے۔
امریکی تجویز کی تفصیلات
ذرائع کے مطابق امریکی منصوبے میں 60 روزہ سیزفائر کی شق شامل ہے، جسے صدر ٹرمپ کی مکمل ضمانت حاصل ہوگی۔ اس دوران درج ذیل مرحلہ وار قیدیوں کی رہائی کی تجویز دی گئی ہے:
پہلے دن 8 اسرائیلی قیدی زندہ حالت میں رہا کیے جائیں گے
ساتویں دن 5 لاشیں حوالے کی جائیں گی
تیسویں دن مزید 5 لاشیں دی جائیں گی
پچاسویں دن 2 زندہ قیدیوں کی رہائی
ساٹھویں دن 8 مزید لاشیں حوالے کی جائیں گی
تبادلے کے تمام مراحل سادگی سے، بغیر کسی تقریب یا مظاہرے کے مکمل کیے جائیں گے۔
تجویز میں فوری انسانی امداد کی فراہمی کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو 19 جنوری کے معاہدے کے تحت اقوام متحدہ اور ہلال احمر کی نگرانی میں انجام پائے گی اور یہ امداد بڑی مقدار میں ہوگی۔
اسی طرح پہلے 8 قیدیوں کی رہائی کے بعد قابض اسرائیلی فوج شمالی غزہ کے کچھ علاقوں سے انخلا کرے گی، جس کے لیے مشترکہ طور پر طے شدہ نقشوں پر عمل کیا جائے گا۔ ساتویں دن جنوبی علاقوں سے بھی محدود انخلا عمل میں لایا جائے گا۔
یہ انخلا پیشگی متفقہ حدود کے مطابق ہوگا اور تکنیکی ٹیمیں جلد مذاکرات کے دوران ان حدود کا تعین کریں گی۔
مستقل جنگ بندی پر مذاکرات
سیزفائر کے آغاز کے ساتھ ہی مستقل جنگ بندی کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگا، جس میں چار اہم نکات شامل ہوں گے:
- باقی قیدیوں کا تبادلہ
- طویل المیعاد سکیورٹی انتظامات
- جنگ کے بعد کے انتظامات
- مستقل جنگ بندی کا اعلان
دسویں دن حماس باقی قیدیوں کے حوالے سے مکمل معلومات، ان کی زندہ یا ہلاک ہونے کی تفصیلات اور طبی رپورٹس فراہم کرے گی، جبکہ اس کے بدلے قابض اسرائیل غزہ سے گرفتار کیے گئے تمام فلسطینیوں کی مکمل تفصیلات فراہم کرے گا، جنہیں 7 اکتوبر سنہ2023ء کے بعد حراست میں لیا گیا۔
یہ تجویز اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ اگر 60 روزہ جنگ بندی کے دوران مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو یہ تنازع مستقل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔
معاہدے کا اعلان ٹرمپ کریں گے
مصر، قطر اور امریکہ اس بات کی ضمانت دیں گے کہ سیزفائر کے دوران سنجیدہ مذاکرات جاری رہیں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو جنگ بندی کی مدت میں توسیع بھی ممکن ہوگی۔ حتمی معاہدے کی صورت میں تمام قیدی رہا کر دیے جائیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود اس معاہدے کا اعلان کریں گے، اور امریکہ کی جانب سے مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری رکھنے کا وعدہ بھی دیں گے۔ مذاکرات کی قیادت امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو ویٹکوف کریں گے۔
یاد رہے کہ امریکی ویب سائٹ “اکسيوس” کے مطابق ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل اور حماس کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر 60 روزہ سیزفائر کے دوران مستقل معاہدے کی شرائط پر اتفاق نہ ہوا، تو امریکہ اس مدت میں توسیع کی حمایت کرے گا، بشرطیکہ سنجیدہ مذاکرات جاری رہیں۔