غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اقوامِ متحدہ نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں جبری بے دخلی کا ایک اور حکم جاری کیا ہے، جہاں اس وقت کم از کم 80 ہزار فلسطینی شہری رہائش پذیر ہیں۔ اس اندوہناک اعلان کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ اس وقت تقریباً 85 فیصد غزہ کی سرزمین جبری نقل مکانی یا صہیونی فوج کے زیر کنٹرول عسکری علاقوں میں شامل کر دی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجاریک نے گذشتہ رات ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ قابض اسرائیل نے خان یونس کے وسیع علاقوں کو بھی خالی کرنے کا حکم دے دیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ لاکھوں فلسطینیوں کو ایک بار پھر بے گھر ہونے کے عذاب سے گزرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ “غزہ کے 85 فیصد علاقے یا تو جبری نقل مکانی کے احکامات کی زد میں ہیں یا انہیں فوجی زون قرار دے دیا گیا ہے، جس سے بنیادی انسانی امداد کی رسائی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔” ان حالات میں غزہ کے لاکھوں شہری زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔
ڈوجاریک نے مزید انکشاف کیا کہ مارچ کے مہینے میں جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک تقریباً 7 لاکھ 14 ہزار فلسطینی جبری طور پر ایک یا ایک سے زائد مرتبہ بے گھر کیے جا چکے ہیں۔ یہ المناک صورتحال غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کرنے کے منصوبے کا واضح ثبوت ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مہاجرین کی یہ بڑی تعداد ایسی جگہوں پر شب بسری پر مجبور ہے جہاں نہ چھت ہے نہ دیواریں۔ اقوام متحدہ کے شراکت داروں کی جانب سے کی جانے والی تازہ ترین جائزہ رپورٹ کے مطابق 97 فیصد بے گھر فلسطینی کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ قابض اسرائیل نے گزشتہ چار ماہ سے غزہ میں پناہ دینے والی کوئی بھی امدادی اشیاء داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ یہ پابندی نہ صرف انسانی المیے کو مزید سنگین بنا رہی ہے بلکہ دنیا بھر کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔
اسی دوران غزہ میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے ان مذموم احکامات کے ساتھ ساتھ صہیونی حکام کی جانب سے مسلسل جبری ہجرت کی وکالت بھی کی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں قابض اسرائیل کے وزیر توانائی ایلی کوہین نے کھلے عام مطالبہ کیا کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے منصوبے پر پوری شدت سے عمل درآمد کیا جائے۔