لندن (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) برطانوی پارلیمان نے بدھ کے روز انسانی حقوق کے لیے سرگرم فلسطینی حامی تنظیم ’فلسطین ایکشن‘ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب خود برطانوی پارلیمان کے اندر سے فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطین کا مقدمہ اب عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ چکا ہے۔
چند روز قبل برطانیہ کی وزیر داخلہ ایویٹ کوپر نے اعلان کیا تھا کہ حکومت ’فلسطین ایکشن‘ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے جا رہی ہے۔ حکومت نے اس تنظیم کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت پابندی کی زد میں لانے کا عندیہ دیا تھا۔
اس پابندی کا پس منظر یہ ہے کہ حالیہ دنوں ’فلسطین ایکشن‘ کے کارکنوں نے انگلینڈ میں واقع ایک فوجی اڈے ’بریز نارتن‘ میں داخل ہو کر جنگی طیاروں پر سرخ رنگ چھڑک دیا تھا، جو قابض اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے کے خلاف احتجاج کی علامت تھا۔
دوسری جانب اسی برطانوی پارلیمان کے اندر فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی رکھنے والی آوازیں بھی گونجتی رہیں۔ خارجہ امور کی پارلیمانی کمیٹی کی سربراہ میلی تھورنبری نے مطالبہ کیا کہ برطانیہ کو بھی فرانس کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر فوری طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت نے پورے مغربی کنارے پر قبضہ جما لیا ہے اور اگر اب بھی قدم نہ اٹھایا گیا تو ممکن ہے کل تسلیم کرنے کو کوئی فلسطین باقی نہ بچے۔
میلی تھورنبری نے مزید کہا کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قائل کیا جانا چاہیے کہ وہ قابض اسرائیل پر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے دباؤ ڈالیں۔
یاد رہے کہ رواں سال اپریل کے آغاز میں فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس ممکنہ طور پر جون میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں اس سمت میں بڑھنا ہو گا، اور ہم آئندہ چند مہینوں میں یہ قدم ضرور اٹھائیں گے۔ یہ کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ وقت کی ضرورت کے تحت ہو گا”۔
فرانسیسی صدر کے اس اعلان پر قابض اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو جو کہ جنگی جرائم کے تحت عالمی فوجداری عدالت کو مطلوب ہیں، شدید برہم ہو گئے۔ انہوں نے ریاست فلسطین کے قیام کو “ہمارے وطن کے دل میں ایک دشمن ریاست” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے کیونکہ اس کا واحد مقصد قابض اسرائیل کو نیست و نابود کرنا ہے۔
قابض اسرائیل نے امریکہ کی سرپرستی میں 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ میں جو تباہ کن نسل کشی شروع کی ہے وہ بدستور جاری ہے۔ اس درندگی میں ہزاروں فلسطینیوں کو شہید، لاکھوں کو زخمی، بے گھر اور بھوکا پیاسا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان میں اکثریت خواتین، بچوں اور معمر افراد کی ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات کو بھی یکسر نظر انداز کر کے قابض اسرائیل نے ایک پورے علاقے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔
فلسطینی نسل کشی کے اس خونی باب میں اب تک تقریباً ایک لاکھ اکیانوے ہزار فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور عورتوں کی ہے۔ گیارہ ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں، جب کہ لاکھوں افراد دربدر ہو چکے ہیں۔ شدید قحط کے نتیجے میں کئی بچے بھوک سے دم توڑ چکے ہیں اور پورے علاقے میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیل چکی ہے۔