جنیوا (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) بین الاقوامی عدالت انصاف نے کل رات ’اسلامی تعاون تنظیم‘ کو مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں اقوام متحدہ، دیگر بین الاقوامی اداروں اور ریاستوں کی
اسرائیلی ذمہ داریوں پر مشاورتی کارروائی میں حصہ لینے کی درخواست پر اسے مشاورتی عمل میں شامل ہونے کا اختیار دیا۔
عدالت نے ایک بیان میں وضاحت کی کہ عدالت کے آئین کے آرٹیکل ’66‘ کی بنیاد پر عدالت کی قائم مقام چیف جسٹس جسٹس جولیا سیبوٹینڈے نے فیصلہ کیا کہ اسلامی تعاون تنظیم ممکنہ طور پر جنرل اسمبلی کے ذریعے عدالت میں پیش کیے گئے سوال پر معلومات فراہم کر سکے گی۔ اس لیے “اسلامی کانفرنس کی تنظیم 2 فروری کو صدر کی طرف سے مقرر کردہ وقت کے اندر اس معاملے پر تحریری بیان جمع کرا سکتی ہے۔”
انیس دسمبر 2017ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مندرجہ ذیل سوال پر بین الاقوامی عدالت انصاف سے مشاورتی رائے کی درخواست کی ایک قرارداد منظور کی تھی۔ “اس میں قابض طاقت کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اپنی قانونی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے بارے میں اقوام متحدہ ک،اس کی ایجنسیوں اور اداروں سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیموں اور تیسری ریاستوں کو مشاورتی رائے میں شامل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔
عدالت نے جنرل اسمبلی کی قرارداد کی سفارش کی روشنی میں مشاورتی رائے میں فلسطینی شہری آبادی کی بقا، بنیادی خدمات، اور انسانی بنیادوں پر ترقیاتی امداد کی فراہمی، فلسطینی شہری آبادی کے فائدے، فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کے لیے ضروری سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے اور سہولیات کی فراہمی جیسے سوالوں پر رائے طلب کئی۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس میں’انروا‘ کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔