مغربی کنارہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے سینئر رہنما محمود مرداوی نے کہا ہے کہ مغربی کنارے میں قابض اسرائیلی فوج اور بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کی سرپرستی میں جاری صہیونی آبادکاروں کے وحشیانہ حملے دراصل فلسطینی عوام کے خلاف کھلی جنگ اور مسلسل جرائم کا تسلسل ہیں، جن کے مقابلے کے لیے مستقل مزاحمت ناگزیر ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک بیان میں محمود مرداوی نے کہا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے مسلسل ظلم، تشدد اور حوصلے توڑنے کی کوششوں کے باوجود فلسطینی قوم اپنی مزاحمت جاری رکھے گی، کیونکہ یہ ان کا فطری اور جائز حق ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اذیتیں، قید و بند کی صعوبتیں اور قتل و غارت مزاحمت کاروں کے جذبے کو کمزور نہیں کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں شہر الخلیل میں جو کچھ ہوا، وہ بھی اسی تسلسل میں ایک فطری مزاحمتی ردعمل تھا، جو اس بات کا واضح پیغام ہے کہ قابض اسرائیل کی درندگی کا مقابلہ صرف مسلسل جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔ مرداوی نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں جاری صہیونی حملوں کے باوجود وہاں کی مزاحمت جس بہادری اور ثابت قدمی سے اپنا دفاع کر رہی ہے، وہ فلسطینیوں کے حوصلے اور استقامت کی علامت ہے۔
حماس کے اس رہنما نے مقبوضہ بیت المقدس، مغربی کنارے اور اندرون فلسطین کے عوام سے اپیل کی کہ وہ قابض اسرائیل کی اس کوشش کو ناکام بنائیں، جس کے تحت وہ مسجد اقصیٰ کو یہودیانے کی ناپاک سازشوں پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کو نشانہ بنانے کی یہ مہم محض ایک مذہبی حملہ نہیں، بلکہ پورے اسلامی تشخص کو مٹانے کی سازش ہے، جسے ہر قیمت پر ناکام بنانا ہوگا۔
محمود مرداوی نے عرب اور اسلامی ممالک سے مؤثر کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو “ناپاکی” سے بچانے کے لیے عملی قدم اٹھایا جائے، اور اس کے اسلامی تشخص کی حفاظت کی جائے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سات اکتوبر سنہ2023ء سے جاری جارحیت، جو امریکہ کی مکمل حمایت سے کی جا رہی ہے، دراصل فلسطینیوں کی اجتماعی نسل کشی ہے، جس میں ہزاروں معصوموں کو قتل کیا جا رہا ہے، لاکھوں کو بھوکا مارا جا رہا ہے، اور بستیاں اجاڑی جا رہی ہیں، لیکن اس سب کے باوجود بین الاقوامی برادری اور عالمی عدالت انصاف کی پکار کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
مرداوی نے اس المیے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اب تک تقریباً ایک لاکھ 89 ہزار فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ گیارہ ہزار سے زائد فلسطینی لاپتہ ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جب کہ غزہ کی فضا میں بھوک کا وہ آسیب منڈلا رہا ہے، جو بچوں سمیت ان گنت جانیں نگل چکا ہے۔ اس کے علاوہ عمارتوں، سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی ایک الگ داستانِ الم ہے۔