غزہ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی تباہ شدہ زمین پر پھیلے ہوئے ملبے کے انباروں میں خطرہ صرف غیر پھٹے ہوئے بموں میں نہیں چھپا بلکہ ایک خاموش راکھ جیسے سرمئی غبار میں بھی چھپا ہے جس کے ذرات میں ایک قاتل مادہ چھپا بیٹھا ہے جسے “ایسبیسٹس” کہا جاتا ہے۔ یہ وہ خفیہ دشمن ہے جو غزہ کے لاکھوں باسیوں کی زندگیوں کے لیے ایک طویل المیے کی بنیاد بن سکتا ہے، حتیٰ کہ جب قابض اسرائیل کے بموں کی گرج تھم چکی ہو گی تب بھی اس کا زہر سانسوں میں سرایت کرتا رہے گا۔
اقوام متحدہ کے مطابق قابض اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں غزہ میں 5 کروڑ ٹن سے زیادہ ملبہ جمع ہو چکا ہے۔ تخمینے کے مطابق اسے صاف کرنے میں بیس سال سے زیادہ کا عرصہ اور کم از کم 1.2 ارب ڈالر لاگت درکار ہوگی۔
تاہم یہ ملبہ صرف گرائے گئے گھروں اور عمارتوں کا ڈھیر نہیں بلکہ اس میں لاکھوں ٹن خطرناک “ایسبیسٹس” بھی شامل ہے، جیسا کہ حالیہ اقوام متحدہ کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد بارودی مواد (UNMAS) کے ماہر چارلس برچ نے کہاکہ “غزہ میں ملبے کی مقدار یوکرین سے کہیں زیادہ ہے، حالانکہ وہاں جنگی محاذ کی لمبائی غزہ سے کئی گنا زیادہ ہے”۔
یہ بیان اس ہولناک تباہی کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے جو اس ساحلی پٹی کو جکڑے ہوئے ہے جہاں لوہے اور کنکریٹ کے ڈھیر زہریلے مواد کے ساتھ مل کر موت کا مرکب بن چکے ہیں۔
ایسبیسٹس کیا ہے؟
ایسبیسٹس قدرتی معدنی ریشوں کا مجموعہ ہے جسے دہائیوں تک تعمیراتی اور موصلی مواد میں استعمال کیا جاتا رہا کیونکہ یہ آگ اور حرارت کے خلاف مزاحم سمجھا جاتا تھا۔
مگر یہی خصوصیات بعد میں ایک عالمی طبی آفت بن گئیں جب یہ واضح ہوا کہ ایسبیسٹس کے نہایت باریک ریشوں کا سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہونا جان لیوا امراض کو جنم دیتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسبیسٹس کی تمام چھ اقسام انسانوں میں سرطان کا باعث بنتی ہیں۔ ان میں سب سے عام اور خطرناک “کرسوٹائل” یعنی سفید ایسبیسٹس ہے جسے تعمیراتی مواد میں سب سے زیادہ استعمال کیا گیا۔
کینسر، ٹوٹی ہوئی سانسیں، بکھرتی زندگیاں
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسبیسٹس کے اثرات سے پھیپھڑوں کا سرطان، حلق اور بیضہ دانی کا سرطان، “میسوتھیلیوما” اور “ایسبیسٹوسِس” جیسی مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
دنیا بھر میں تقریباً 12 کروڑ 50 لاکھ افراد آج بھی اپنے کام کی جگہوں پر ایسبیسٹس کے اثرات سے دوچار ہیں اور ہر سال دو لاکھ سے زیادہ انسان ان بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
یہ اعدادوشمار ویسے ہی لرزہ خیز ہیں، لیکن غزہ کے پس منظر میں ان کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، جہاں ایسبیسٹس لاکھوں تباہ شدہ گھروں کے ملبے کے ساتھ گھل مل چکا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو پہلے ہی قابض اسرائیل کے محاصرے اور صحت کی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہے۔
غزہ کے لیے نئی ماحولیاتی اور انسانی تباہی
ماحولیاتی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ملبے کو غیر محفوظ طریقے سے ہٹانے کی صورت میں یہ زہریلے ریشے فضا میں پھیل سکتے ہیں جس سے ہر صفائی کی کوشش بذات خود موت کی نئی لہر کا باعث بن سکتی ہے۔
صحیح حفاظتی آلات کی کمی، ریسکیو ٹیموں کے پاس سلامتی کے بنیادی وسائل کی عدم دستیابی اور قابض اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ پابندیوں کے باعث انسانی خدمت کا یہ عمل خود ایک “خاموش اجتماعی قتل” بن سکتا ہے۔
غزہ کی صورتحال کو مزید سنگین بنانے والا پہلو یہ ہے کہ وہاں ملبے میں ناکارہ بم، زہریلی آلودگی اور ہزاروں شہیدوں کی لاشیں بھی دبی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملبہ ہٹانے کا عمل دنیا کی سب سے مشکل اور خطرناک انسانی ذمہ داریوں میں سے ایک بن چکا ہے۔
ملبے کے بیچ ایک نئی جنگ
جب دنیا کی نگاہیں امداد اور تعمیر نو کی باتوں پر مرکوز ہیں، بہت سے لوگ اس “خاموش دشمن” کو بھول چکے ہیں جو بغیر دھماکے یا گولی کے بھی زندگیاں نگل رہا ہے۔
ایسبیسٹس آہستہ آہستہ جسم میں سرایت کرتا ہے، دکھ اور اذیت کے سالوں کے بعد موت کا فیصلہ صادر کرتا ہے۔
غزہ میں جہاں راکھ اور خون ایک دوسرے میں گھلے ہوئے ہیں، جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ قابض اسرائیل کی درندگی کے بعد بھی وہاں موت کی ایک اور لہر جنم لے رہی ہے۔
ایسبیسٹس، وہ زہر جو ملبے میں چھپا ہے، آنے والی نسلوں کے لیے اس جاری جرم کا خاموش گواہ بن چکا ہے۔
