غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے بین الاقوامی ایسوسی ایشن برائے ماہرین نسل کشی جس میں واضح کیا گیا ہے کہ قابض اسرائیل نے وہ تمام قانونی معیارات پورے کر دیے ہیں جو غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کو ثابت کرتے ہیں۔ (IAGS) کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ “ایک نیا قانونی دستاویزاتی ثبوت ہے” جو ان بین الاقوامی رپورٹس اور گواہیوں کی فہرست میں اضافہ کرتا ہے جنہوں نے دنیا کے سامنے اس حقیقت کو آشکار کیا کہ فلسطینی عوام پر کھلی نسل کشی مسلط ہے اور یہ سب عالمی برادری کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔
حماس نے عالمی برادری اور بالخصوص حکومت بنجمن نیتن یاھو کے خلاف عدم اقدام پر سخت تنقید کی اور اسے “انسانیت کے تحفظ میں بدترین ناکامی اور بدنما داغ” قرار دیا۔ حماس نے خبردار کیا کہ اس مجرمانہ غفلت کے تسلسل سے عالمی امن و سلامتی براہِ راست خطرے میں ہے۔
حماس نے اقوام متحدہ، عالمی برادری اور تمام متعلقہ فریقوں سے مطالبہ کیا کہ “فوری طور پر نسل کشی، جبری ہجرت اور آبادی کے صفایا کرنے جیسے جرائم کو روکنے کے لیے حرکت میں آئیں، قابض اسرائیل کے رہنماؤں کو ان کی فاشسٹ اور دہشت گردانہ جرائم پر کٹہرے میں لایا جائے اور انہیں کسی صورت سزا سے بچنے نہ دیا جائے”۔
واضح رہے کہ عالمی فوجداری عدالت نے 21 نومبر سنہ2024ء کو قابض اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور اس کے سابق وزیر دفاع وزیر یوآف گلینٹ کے خلاف دو مفروری وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ ان پر فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت دشمن جرائم کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
امریکہ کی سرپرستی میں قابض اسرائیل سات اکتوبر سنہ2023ء سات اکتوبر سے غزہ میں کھلی نسل کشی کر رہا ہے جس میں قتل عام، بھوک، تباہی اور جبری ہجرت شامل ہیں۔ یہ سب عالمی مطالبات اور عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو ٹھکراتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ اس قتل عام میں اب تک 63 ہزار 557 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، 1 لاکھ 60 ہزار 660 زخمی ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے، 9 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور قحط نے 348 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے جن میں 127 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔