Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ کے آہنی عزم عوام جبری نقل مکانی کے صہیونی منصوبے کے سامنے سیسہ پلائی دیوار

غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کے بڑھتے ہوئے جارحانہ حملوں، مسلسل فوجی یلغار اور وسطی غزہ و شمالی علاقے پر ڈھائے جانے والے ظلم و سفاکیت کے باوجود اہلِ غزہ اپنی زمین سے وابستہ ہیں اور جبری بے دخلی و نسلی تطہیر کے اس مذموم منصوبے کو ماننے سے یکسر انکاری ہیں۔ ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے جو ان کے صبر و استقامت کی پہچان بن چکا ہے کہ’’ہم یہیں رہیں گے، ہرگز نہیں جائیں گے۔ ہم موت قبول کریں گے مگر جبری نقل مکانی نہیں‘‘۔

قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے مسلسل دھمکیوں اور بار بار جنوبی غزہ کی طرف نکل جانے کے احکامات کے باوجود ہزاروں فلسطینی خاندان اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف اندھا دھند بمباری اور مسلسل تباہی کو نظرانداز کر رہے ہیں بلکہ بھوک و پیاس اور بڑھتے قحط کے عالم میں بھی اپنی زندگی کو ایک روزانہ کی جدوجہد کے طور پر جیتے جا رہے ہیں۔

گیارہ اگست سنہ2025ء سے قابض اسرائیلی فوج نے غزہ شہر پر زمینی جارحیت کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جس میں درجنوں ہولناک اجتماعی قتل عام اور فلسطینی خاندانوں کو ان کی بستیوں سمیت نیست و نابود کرنے کے واقعات شامل ہیں۔

غزہ میں سرکاری پریس آفس کے مطابق صرف تین ہفتوں میں قابض اسرائیل نے گیارہ سو فلسطینیوں کو شہید کر دیا اور سو سے زیادہ خودکش روبوٹ دھماکوں کے ذریعے غزہ کے گنجان آباد علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا ڈالا۔

دھوکے کی حقیقت

اگرچہ کچھ خاندانوں کو مجبوری کے تحت جنوبی غزہ جانا پڑا مگر جلد ہی یہ حقیقت کھل گئی کہ قابض اسرائیل کا یہ پروپیگنڈا کہ جنوب ’’محفوظ علاقہ‘‘ ہے، محض ایک جھوٹا فریب اور ایک چال تھی تاکہ شمالی غزہ کو آبادی سے خالی کرایا جا سکے۔

شمال مغربی غزہ کے علاقے کرامہ کی ایک تنگ گلی میں بیٹھی ام رائد حمودہ اپنے خستہ حال خیمے کے باہر گذشتہ دنوں کی روداد سناتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ جب جبالیہ اور ابو اسکندر کی بمباری سے بچنے کے لیے دير البلح پہنچی تھیں تو ان کے الفاظ میں یہ محض ہجرت نہیں بلکہ ’’روح کو جسم سے اکھاڑنے‘‘ جیسا تجربہ تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’’ہمیں قابض اسرائیل نے نکلنے پر مجبور کیا۔ میں نے چھوٹے بچے کو بازوؤں میں اٹھایا، شوہر ایک پرانی ریڑھی کھینچ رہا تھا جس پر چند کمبل رکھے تھے۔ دھماکوں کی گونج کے درمیان ہم نے کئی گھنٹے پیدل سفر کیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے موت ہر قدم پر ہمارا پیچھا کر رہی ہو‘‘۔

ام رائد آنکھوں میں آنسو لیے مزید بتاتی ہیں کہ ’’راستے بھر ناقابلِ فراموش مناظر تھے۔ عورتیں چیخ رہی تھیں، بچے بلک رہے تھے اور سڑک کنارے لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ ہمیں معلوم نہ تھا منزل تک پہنچیں گے یا راستے میں ہی جان دے بیٹھیں گے‘‘۔

ایک اذیت سے دوسری اذیت تک

مگر جنوبی علاقے تک پہنچنا کسی نجات کے بجائے ایک نئی اذیت ثابت ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’پہلی رات ہم دیرالبلح کی سڑک پر سوئے۔ پانی تھا نہ کھانا اور نہ ہی کوئی پناہ گاہ۔ مراکزِ پناہ میں اس قدر بھیڑ تھی کہ بچے بھوک اور پیاس سے چیخ اٹھے۔ اس وقت سمجھ آگیا کہ یہ ہجرت خلاصی نہیں بلکہ ایک اور عذاب ہے‘‘۔

کچھ دن بعد اس خاندان نے واپس غزہ لوٹنے کا فیصلہ کیا، ’’ہم نے سوچا کہ کم از کم اپنے شہر میں ملبے تلے ہی سہی مگر عزت کے ساتھ جی سکتے ہیں، یہاں اپنے لوگ ہیں‘‘۔

ام رائد نے درد بھری آواز میں کہاکہ ’’اب ہم سلامتی نہیں ڈھونڈتے، وہ ہم سے چھن چکی ہے۔ ہماری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ ہم اپنی زمین پر عزت سے باقی رہیں، چاہے اپنے گھر کے کھنڈر کے پاس خیمے میں ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔

عزت سب سے قیمتی ہے

ابو عاہد شمالی کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ شدید گولہ باری نے انہیں اپنے اہل خانہ سمیت جنوبی علاقے الزوايدہ کی طرف دھکیل دیا۔ مگر وہاں بھی اذیت کم نہ ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں ’’ہم ایک تنگ خیمے میں بھری دنیا کے ساتھ رہتے، ہوا کا گزر نہ تھا، نہ پرائیویسی۔ پانی کی ایک بوتل یا بیت الخلا کے لیے روزانہ جھگڑے ہوتے۔ میرے بیٹے کو مٹی میں کانپتے دیکھ کر لگا جیسے میری انسانیت مجھ سے چھین لی گئی ہو‘‘۔

بالآخر ابو عاہد نے بھی واپس ملبے کا ڈھیر بنے گھر کا رخ کیا۔ ان کے الفاظ میں ’’یہاں کم از کم ہمیں احساس ہے کہ ہم اپنی زمین پر ہیں، اپنے ہمسایوں کے ساتھ۔ یہی ہمارے وجود کی پہچان ہے‘‘۔

واپسی کا فیصلہ

جو خاندان شمالی غزہ واپس آئے انہیں تباہ گھروں اور اجڑی بستیوں کے سوا کچھ نہ ملا۔ کئی نے پھٹے پرانے کپڑوں کے خیمے گاڑھے، کچھ نے زینکو کی چادروں سے عارضی جھونپڑیاں بنائیں۔ مگر ان سب نے جنوبی پناہ گاہوں کی ذلت کو ٹھکرا دیا۔

ان کے نزدیک بمباری تلے مرنا، بے وطنی کے عذاب سے بہتر ہے۔ ابو عاہد پُرعزم لہجے میں کہتے ہیں کہ ’’ہم خیرات کی قطاروں میں کھڑے اعداد نہیں۔ ہم اس سرزمین کے وارث ہیں اور یہیں رہیں گے، چاہے کچھ بھی ہو جائے‘‘۔

ٹوٹنے والا نہیں یہ حوصلہ

موت کے سائے ہر طرف ہیں مگر اہلِ غزہ کے عزم میں ذرہ برابر لغزش نہیں۔ وہ پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دے رہے ہیں: ہم اکھاڑے نہیں جائیں گے، ہمیں بے دخل نہیں کیا جا سکتا، کوئی نئی نکبہ مسلط نہیں ہو سکتی۔

ہر ٹوٹے مکان اور ہر خیمے کے نیچے یہی صدا بلند ہو رہی ہے کہ وطن محض ایک جگہ نہیں بلکہ عزت اور حق کا وہ رشتہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan