برازیل میں فلسطینی مہاجرین کی جانب سے اپنے ملک کے سفارت خانے کے سامنے لگائے گئے احتجاجی کیمپ پر برازیلی پولیس نے حملہ کر دیا، پولیس ’’فتح‘‘ حکومت کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور بین الاقوامی تعلقات کے کمشنر نبیل شعث کی موجودگی میں مہاجرین پر ظلم کرتی رہی مگر رام اللہ حکومت کے عہدیداروں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ متعدد ذرائع نے وضاحت کی ہے کہ شعث فلسطینی قوم کے حق میں کیے گئے مظالم کا چشم دید گواہ تھا۔ جس دوران پولیس فلسطینی مہاجرین کو اپنے ظالمانہ کارروائیوں کا نشانہ بنا رہی تھی لاطینی ممالک کے نمائندوں سے ملاقات کے لیے شعث سفارت خانے کے اندر موجود تھا، وہ فلسطینیوں کے ساتھ کیے گئے توہین آمیز سلوک کے مناظر دیکھتا رہا مگر ظلم رکوانے کے لیے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا۔ برازیل کے دارالحکومت میں ایک فلسطینی خاندان نے تنظیم آزادی فلسطین کے سفارت خانے کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ اس احتجاج کا مقصد نام نہاد فلسطینی حکمرانوں سے فلسطینی عوام کے حق میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے اور فلسطینی مہاجرین کو برازیل سے نکال کر کسی دوسرے ملک اور پھر اپنے وطن واپس لانے کا مطالبہ تھا، مگر فلسطینی سفیر ابراہیم زبن نے فلسطینی مہاجرین سے خالی وعدوں پر اکتفا کیا۔ ایک جانب فلسطینی مہاجرین سورج کی آگ برساتی گرمی میں زمین کے تپتے فرش پر گزارا کرنے پر مجبور تھے دوسری جانب سفارتی عملہ ہر طرح کے عیاشیوں میں مگن رہا۔ فلسطیی سفیر نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فلسطینی قوم کے حق میں اس احتجاجی کیمپ کو ختم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے شرکاء کیمپ کو دھمکیاں بھی دیں، اور کیمپ کے ہمسایے میں بسنے والے یہودیوں کو بھی کیمپ کے خلاف اکسایا اور بالآخر کیمپ ختم کرانے کے لیے برازیل کی پولیس طلب کر لی گئی ۔پولیس نے مہاجرین پر حملہ کر دیا اور دھرنے کو زبردستی ختم کرا دیا اور مہاجرین کو مختلف علاقوں کی طرف منتشر کر دیا۔ اس دوران سفارت خانے کے ہمسایے کے برازیلیوں نے فلسطینی مہاجرین کی مدد کی اور انہیں برازیلی پولیس کے تشدد سے بچایا۔ جبکہ فلسطینی سفارت خانے میں ایک پراسرار اور سازشی خاموشی طاری رہی۔ اس موقع پر وہ مناظر یاد آ گئے جب اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں پر ظلم کے وقت بھی فتح حکومت اپنا منہ سی لیتی ہے۔