(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیلی حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ شمالی مغربی کنارے کے شہر نابلُس میں واقع قبرِ یوسف پر صہیونی آبادکاروں کو دن کے اوقات میں دھاوا بولنے کی اجازت دیں گے، جو گذشتہ 25 برس میں پہلی مرتبہ ہو گا۔ یہ اقدام فلسطینی علاقوں پر تسلط مضبوط کرنے اور مذہبی مقامات کو ہتھیانے کی ایک نئی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے پیر کے روز رپورٹ کیا کہ قابض وزیر دفاع یسرائیل کاٹز، کنیسٹ کے رکن زیفی سوکوت اور قومی اداروں کے محکمۂ آبادکاری کے سربراہ یشائی میرلنگ کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ مزار یوسف پر زیارت کے اوقات کو رات کے بجائے دن تک بڑھا دیا جائے۔
اس فیصلے کے تحت صہیونی آبادکار نابلُس کے قلب میں واقع اس مقام کے احاطے میں دن کی روشنی میں داخل ہو سکیں گے۔ یہ صورت حال 25 برس قبل وہاں قائم دینی مدرسہ یشیوا کے انخلا کے بعد پہلی مرتبہ سامنے آ رہی ہے۔ اخبار نے اس فیصلے کے عملی نفاذ کی تاریخ واضح نہیں کی۔
قبرِ یوسف نابلُس کے مشرقی حصے میں واقع ہے جو فلسطینی کنٹرول میں ہے۔ قابض یہودی مغربی کنارے پر سنہ 1967ء کے قبضے کے بعد سے اسے ایک مقدس مقام قرار دیتے آئے ہیں۔ یہودی عقائد کے مطابق نبی یوسف بن یعقوب کی باقیات مصر سے لا کر یہاں دفن کی گئیں۔
تاہم ماہرینِ آثارِ قدیمہ اس دعوے کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مقام کی عمر چند صدیوں سے زیادہ نہیں بلکہ یہ ایک مسلمان بزرگ یوسف الدویكات کا مزار ہے۔
سنہ 1967ء کے بعد یہ مقام صہیونی آبادکاروں کے لیے باقاعدہ زیارت گاہ بن گیا جہاں وہ مذہبی عبادات اور تلمودی رسومات ادا کرتے رہے۔ سنہ 1986ء میں قابض اسرائیل نے یہاں تورات کی تعلیم کے لیے ایک یہودی مدرسہ قائم کیا۔ بعد ازاں سنہ 1990ء میں اس مقام کو ایک فوجی چوکی میں تبدیل کر دیا گیا اور اسی برس قابض اسرائیل کی نام نہاد وزارتِ ادیان نے اسے یہودی وقف قرار دے دیا۔
گذشتہ برسوں کے دوران قبرِ یوسف کے اطراف شدید اور خونی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں سنہ 1996ء کا واقعہ ہے جب فلسطینی قومی سکیورٹی فورسز اور قابض اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں دونوں جانب جانی نقصان ہوا جسے ہبہ النفق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
دوسری فلسطینی انتفاضہ کے آغاز میں سنہ 2000ء میں بھی اس مقام کے گرد شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں فلسطینی شہید اور قابض اسرائیلی فوج کے اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد قبرِ یوسف انتظامی طور پر فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ کنٹرول آ گئی تاہم یہ مقام بدستور تنازعے اور کشیدگی کا مرکز بنا رہا۔ ہر ہفتے سینکڑوں صہیونی آبادکار قابض فوج کی سکیورٹی میں رات کے وقت یہاں دھاوا بول کر مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔
مغربی کنارے کی زمینوں پر قائم سینکڑوں غیر قانونی بستیوں میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ صہیونی آبادکار رہائش پذیر ہیں جن میں مشرقی القدس میں بسنے والے ڈھائی لاکھ آبادکار بھی شامل ہیں۔ یہ آبادکار روزانہ کی بنیاد پر فلسطینی شہریوں پر حملے کرتے ہیں تاکہ انہیں جبری طور پر بے دخل کیا جا سکے۔
