(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے نئے عسکری ترجمان کا خطاب معرکۂ حق و باطل کے ایک نہایت نازک مرحلے پر سامنے آیا ہے، ایسے وقت میں جب طویل جنگ کے اثرات ،جنگ بندی کے بعد کے سوالات سے آ ملتے ہیں اور قابض صہیونی دشمن ریاست کی جانب سے تصادم کی نوعیت اور اس کی شرائط کو ازسرنو متعین کرنے کی کوششیں تیز ہو چکی ہیں۔
یہ خطاب محض شہید قائدین کے اعلان یا تعزیتی کلمات تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں سیاسی اور معنوی پیغامات کا ایک جامع اور گہرا مجموعہ شامل تھا جس کا مقصد اجتماعی شعور کو مضبوط کرنا، فلسطینی عوام کے دلوں کو اطمینان دینا اور خطے اور دنیا کی توجہ ایک بار پھر اصل فلسطینی کاز کی طرف مبذول کرانا تھا۔
خطاب کے مرکز میں یہ فکر نمایاں رہی کہ شہادت کو محض فقدان کے لمحے کے بجائے جدوجہد کے تسلسل کی بنیاد بنایا جائے اور استقامت کو ایک باشعور اور نتیجہ خیز عمل کے طور پر پیش کیا جائے نہ کہ وقتی انسانی کیفیت کے طور پر دیکھا جائے۔
شہید قائدین اور جدوجہد کا تسلسل
خطاب میں شہید قائدین کو ایک جاری و ساری راستے کے ستونوں کے طور پر پیش کیا گیا نہ کہ ایسے ناموں کے طور پر جن کا کردار میدان سے رخصتی کے ساتھ ختم ہو گیا ہو۔ ان کے قائدانہ اور تنظیمی کرداروں کو اجاگر کر کے اس حقیقت پر زور دیا گیا کہ شہادت نے تجربے کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ اس کے مفہوم کو مزید گہرا کر دیا اور تسلسل اور جانشینی کے اصول کو مضبوط بنایا۔
یہ پیغام اندرونِ فلسطین اس اعتماد کو مستحکم کرنے کے لیے تھا کہ یہ منصوبہ کبھی افراد کا محتاج نہیں رہا اور بیرونی دنیا کے لیے اس وہم کی نفی تھا کہ قیادت کو نشانہ بنا کر عزم کو توڑا جا سکتا ہے۔
فلسطینی استقامت ایک جامع سیاسی قدر
خطاب نے استقامت کو محض مجبوری کے تحت برداشت کی جانے والی اذیت کے بجائے ایک باشعور سیاسی قدر کے طور پر ازسرنو پیش کیا۔
فلسطینی عوام بالخصوص غزہ کے باشندوں کو اس جدوجہد میں شریکِ کار کے طور پر دکھایا گیا نہ کہ محض واقعات کے تماشائی کے طور پر۔
یہ تعبیر اس امر کو واضح کرتی ہے کہ شدید درد کے باوجود جو ثابت قدمی حاصل ہوئی وہ ایک سیاسی اور اخلاقی کامیابی ہے جس نے دشمن کے بنیادی اہداف کو ناکام بنایا جن میں اجتماعی ارادے کو توڑنا اور معاشرے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا شامل تھا۔
سات اکتوبر اور بیانیے کی ازسرنو تشکیل
خطاب میں عسکری ترجمان نے سات اکتوبر کو ایک وسیع تاریخی اور سیاسی تناظر میں رکھ کر پیش کیا اور اسے ظلم ،محاصرے اور مسلسل جارحیت کے فطری نتیجے کے طور پر بیان کیا نہ کہ ایک الگ تھلگ واقعے کے طور پر۔
یہ تشریح اندرونی محاذ پر جدوجہد کی حقانیت کو راسخ کرتی ہے اور عالمی برادری کو یاد دلاتی ہے کہ تنازعہ کی جڑوں کو نظر انداز کرنا ہی بار بار دھماکے کو جنم دیتا ہے۔ یہاں یادداشت ایک بوجھ نہیں بلکہ بیداری کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
مزاحمت اسلحہ اور عدمِ مفاہمت کی سرحدیں
خطاب میں واضح کیا گیا کہ مزاحمت کا اسلحہ کوئی فنی مسئلہ نہیں جسے سیاق و سباق سے الگ کر کے زیرِ بحث لایا جا سکے بلکہ یہ قابض اسرائیل کے تسلط کے مقابلے میں دفاع کے فطری حق کا اظہار ہے۔
یہ پیغام ان علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کے لیے تھا جو تنازعے کو محض سکیورٹی زاویے سے دیکھتی ہیں اور انہیں یاد دلایا گیا کہ استحکام یا تعمیر نو کی کوئی بھی بات اس وقت تک ادھوری رہے گی جب تک مسئلے کی اصل جڑ کو نہیں چھیڑا جاتا۔
اسی کے ساتھ اندرونی محاذ کو یہ اطمینان بھی دیا گیا کہ بنیادی اصول کسی سودے بازی کا حصہ نہیں بنے اور جنگ بندی کو موقف کی کمزوری میں تبدیل نہیں ہونے دیا گیا۔
داخلی ذمہ داریاں اور وحدتِ موقف
خطاب میں اندرونی صفوں کے استحکام اور عوامی محاذ کو مایوسی اور انتشار سے بچانے کی ضمنی مگر واضح دعوت دی گئی۔
یہ پیغام دیا گیا کہ استقامت کی جنگ محض میدانِ عمل تک محدود نہیں بلکہ شعور وحدتِ بیانیہ اور مشترکہ موقف تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس تناظر میں شہید قائدین کی قربانی کو اتحاد کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا نہ کہ اختلاف یا حوصلہ شکنی کی وجہ کے طور پر۔
خطے اور دنیا کے لیے پیغام: ذمہ داری ختم نہیں ہوئی
خطاب میں علاقائی اور عالمی فریقوں کو دو ٹوک انداز میں یاد دہانی کرائی گئی کہ سیز فائر کے اعلان کے ساتھ ان کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہو جاتیں۔
خطاب کے مطابق جارحیت مختلف صورتوں میں اب بھی جاری ہے جس کے باعث سیاسی قانونی اور انسانی دباؤ کا تسلسل ناگزیر ہے۔
آزاد دنیا کے عوام کو بھی مخاطب کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ عوامی اور حقوقی تحریک استقامت کی مساوات کا حصہ رہی ہے اور اس کا جاری رہنا اخلاقی اور سیاسی فریضہ ہے تاکہ قابض دشمن احتساب سے بچ نہ سکے۔
نئے عسکری ترجمان کی موجودگی اور آواز کا تسلسل
خطاب کی ایک نہایت اہم علامت القسام بریگیڈز کے نئے عسکری ترجمان کی موجودگی ہے جو محض انتظامی تبدیلی نہیں بلکہ شعور اور جدوجہد کے محاذ پر ایک گہرا پیغام ہے۔
اس حقیقت نے ثابت کیا کہ تنظیم کسی ایک فرد کے گرد نہیں بلکہ ایک کردار ویژن اور مقصد کے گرد قائم ہے۔
یہ آواز مفہوم کا تسلسل ہے اس کا متبادل نہیں اور اس بات کا اعلان ہے کہ شہادت نے خطاب کو خاموش نہیں کیا بلکہ اسے مزید مضبوط شکل میں دوبارہ جنم دیا ہے۔
یہ تسلسل فلسطینی عوام کو یقین دلاتا ہے کہ قیادت موجود ہے اور دشمن اور اس کے حلیفوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ علامتوں کو نشانہ بنانے سے نہ رابطہ ٹوٹا ہے نہ ڈھانچہ متزلزل ہوا ہے۔
امید بطور باشعور انتخاب
خطاب کی گہری معنویت کا اختتام امید کے تصور پر ہوتا ہے جو حقیقت سے انکار نہیں بلکہ ایک باشعور انتخاب ہے جو حاصل شدہ استقامت اور دشمن کے بڑے اہداف کی ناکامی پر قائم ہے۔
شہید قائدین کی قربانی کو فتح کے سفر کی اخلاقی اور سیاسی سمت قرار دیا گیا اور فتح کو ایک طویل مگر ثابت قدم راستے کے طور پر پیش کیا گیا نہ کہ ایک لمحاتی امکان کے طور پر۔
یہی سب سے واضح پیغام ہے کہ جس قوم نے فقدان کو معنی میں بدل دیا وہ صبر کو مستقبل میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور صہیونی دشمن کے خلاف طوفانِ مزاحمت کی جنگ فتح تک جاری رکھنے کا عزم رکھتی ہے۔
