(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) انروا کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے اتوار کے روز کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں شدید سردی کا موسم قابض اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے باعث دو برس سے زیادہ عرصے سے جاری فلسطینی عوام کی اذیتوں کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔
لازارینی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پیغام میں واضح کیا کہ غزہ میں مزید بارشوں کا مطلب مزید بدحالی، مایوسی اور موت ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں کڑا سرد موسم ایسی مصیبتوں میں اضافہ کر رہا ہے جو دو برس سے زائد عرصے سے جاری ہیں، جہاں شہری ملبے کے درمیان بوسیدہ خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جو پانی سے بھر چکے ہیں، جبکہ امدادی سامان مطلوبہ مقدار میں پہنچ ہی نہیں پا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر محصور غزہ میں امداد کے بہاؤ کی اجازت دی جائے تو انروا اپنی امدادی سرگرمیوں کو دوگنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اسی تناظر میں غزہ میں سرکاری میڈیا آفس نے بتایا کہ بے گھر فلسطینیوں کی فوری انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے تقریباً دو لاکھ تیار شدہ رہائشی یونٹس کی اشد ضرورت ہے، خاص طور پر ان سخت موسمی حالات میں۔
میڈیا آفس نے وضاحت کی کہ موجودہ موسمی دباؤ کے باعث غزہ کے مختلف علاقوں میں ہزاروں خیمے یا تو ڈوب گئے یا تیز ہواؤں میں اڑ گئے، جس سے انسانی ایمرجنسی کی کیفیت مزید شدت اختیار کر گئی۔
ہفتے کے روز سے غزہ کی پٹی ایک قطبی موسمی دباؤ کی زد میں ہے، جو موسم سرما کے آغاز کے بعد اپنی نوعیت کا تیسرا سلسلہ ہے، جس کے ساتھ موسلا دھار بارشیں اور تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔
غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کی المیہ ایک بار پھر تازہ ہو گیا ہے، جب شدید بارشوں، طوفانی ہواؤں اور سمندری لہروں نے جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں ان کے خیموں کو پانی میں ڈبو دیا۔
بارش کا پانی بے گھر خاندانوں کے خیموں میں داخل ہو گیا اور ان کے پاس موجود تھوڑا سا سامان بھی تباہ ہو گیا، ایسے میں جب انسانی حالات پہلے ہی نہایت کٹھن ہیں، مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں اور زندگی کی بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق قابض اسرائیل نے 10 اکتوبر سے نافذ سیز فائر معاہدے کے بعد اب تک 969 خلاف ورزیاں کیں، جن کے نتیجے میں 418 فلسطینی شہید اور 1141 زخمی ہوئے۔ میڈیا آفس نے زور دیا کہ یہ تمام خلاف ورزیاں بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح پامالی اور جنگ بندی معاہدے اور اس سے منسلک انسانی پروٹوکول کی روح کو روندنے کے مترادف ہیں۔
