قابض اسرائیلی انتظامیہ نے بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے ایک کم عمر فلسطینی بچے کو صہیونی فوج کی گاڑی پر پتھر پھینکنے کے الزام میں بیت المقدس سے نکال دیا ہے. گیارہ سالہ نوخیز بچہ آئندہ دو ماہ تک بیت المقدس میں داخل نہیں ہو سکے گا. مقبوضہ بیت المقدس میں اراضی اور جائیدادوں کے تحفط کے لیے قائم فلسطینی کمیٹی نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی بیت المقدس میں ایک ڈسٹرکٹ کورٹ میں گیارہ سالہ محمد غیث کے مقدمہ کی سماعت ہوئی.اس موقع پر اسرائیلی وکلا نے فوجی گاڑی پر سنگ زنی کو اسرائیلی فوج پر براہ راست حملہ قرار دیا. وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم کو بیت المقدس سے بے دخل کرنے کے احکامات کے ساتھ ساتھ اس کے والد کو جرمانہ کیا جائے. عدالت نے سنگ زنی کیس میں گیارہ سالہ بچے کو محمد غیث کو دو ماہ کے لیے بیت المقدس سے بے دخل کرنے اور اس کے والد کو چار ہزار شیکل جرمانہ کی سز کا حکم دیا. دوسری جانب فلسطینی کمیٹی نے اسرائیلی عدالت کے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے جانبدارانہ اور ظالمانہ قرار دیا ہے.کمیٹی کی طرف سے جای ایک بیان کی مرکز اطلاعات فلسطین کو موصولہ کاپی میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی عدالتیں مقدمات میں بڑوں اور بچوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھتیں. فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والا یہ امتیازی سلوک ہی صہیونی عدالتوں کے نام نہاد منصفانہ فیصلوں کی قلعی کھولنے کےلیے کافی ہے. بیان میں کہا گیا کہ اگرصہیونی عدالت انصاف کے مطابق فیصلے کرتی ہے تو ان ہزاروں یہودیوں کو بھی بیت المقدس سے نکال باہر کرنے کا فیصلہ دے جو آئے روز فلسطینی شہریوں پرپتھراٶ کر کے انہیں جانی اور مالی نقصان پہنچا رہے ہیں. یادرہے کی دور روز قبل اسرائیلی فوج نے بیت المقدس میں سلوان کے مقام سے گیارہ سالہ محمد غیث کو گرفتار کر کے پولیس سینٹر منتقل کیا تھا. تفتیش کے بعد کل اسے ایک فوجی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں صہیونی عدالت نے فوجی گاڑی پرپتھراٶ کرنے کے الزام میں اسے دو ماہ تک شہر بدر کرنے کی سزا سنائی.