Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

صیہونیزم

اسرائیل کی مسجد اقصیٰ پر سیاسی نظریں

(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن)مسجد اقصیٰ المبارک گذشتہ کئی ماہ سے صہیونی جارحیت کے ایک خطرناک اور تیز رفتار مرحلے سے گزر رہی ہے جہاں انتہا پسند آبادکار گروہ قابض اسرائیل کی فورسز کی براہ راست سرپرستی میں مسلسل دراندازیاں کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال اب کسی ابہام کی محتاج نہیں رہی کیونکہ اس کا واضح مقصد مسجد کے اندر نئی جبری حقیقتیں مسلط کرنا ہے تاکہ اس کے تاریخی اور قانونی تشخص کو بدلتے ہوئے اسے منظم یہودیانے کے منصوبے اور فلسطینی مرابطین کی ثابت قدم موجودگی کے درمیان ایک کھلے تصادم کا میدان بنایا جا سکے۔

عرب میڈیا اور انسانی حقوق کی رپورٹس جنہیں گذشتہ برسوں کے دوران العربی الجدید اور الجزیرہ نیٹ نے شائع کیا واضح کرتی ہیں کہ مسجد اقصیٰ پر دراندازیاں اب محض یہودی مذہبی تہواروں تک محدود نہیں رہیں بلکہ ایک مستقل روزانہ پالیسی کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ ان دراندازیوں کے ساتھ ساتھ مسجد کے صحنوں میں اعلانیہ تلمودی رسومات ادا کرنے کی کوششیں بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ مسلمان نمازیوں کے داخلے پر خاص طور پر صبح کے اوقات میں سخت پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔

دراندازی سے تقسیم تک

دستاویزی شواہد کے مطابق قابض اسرائیل مرحلہ وار اقدامات کے ذریعے وقتی تقسیم کو عملاً نافذ کر رہا ہے جس کے تحت آبادکاروں کے لیے روزانہ مخصوص اوقات مقرر کیے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد مزید خطرناک پیش رفت کے آثار سامنے آ رہے ہیں جو مکانی تقسیم سے جڑے ہیں خاص طور پر مسجد کے مشرقی حصے میں جہاں خلاف ورزیوں کا دائرہ سب سے زیادہ پھیل چکا ہے۔

مرکز القدس برائے مطالعات کے سربراہ حسن خاطر خبردار کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی بے قابو عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی ہے جس کا مقصد مسجد کے مشرقی حصے کو الگ کر کے اسے آبادکاروں کے زیر اثر علاقہ بنانا ہے تاکہ زمانی اور مکانی تقسیم مسلط کی جا سکے اور اس کے بعد مسجد پر مکمل بالادستی کی طرف پیش قدمی کی جا سکے۔

حسن خاطر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قابض اسرائیل کی نیت اب کھل کر سامنے آ چکی ہے خاص طور پر اس وقت جب قابض پولیس نے مسجد اقصیٰ کے اندر اجتماعی تلمودی عبادات کی اجازت دی ہے جو سنہ 1967ء میں القدس پر قبضے کے بعد طے پانے والے اسٹیٹس کو کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مسجد اقصیٰ مکمل طور پر مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اور اس کی نگرانی اردنی اسلامی اوقاف کے پاس ہے۔

رپورٹس کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران سالانہ دراندازیوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے جو قابض حکومت میں مذہبی قوم پرست دھڑوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ سامنے آیا ہے۔ یہ دھڑے مسجد اقصیٰ کو ایک مذہبی اور خودساختہ خودمختاری کا مسئلہ قرار دیتے ہیں جسے وہ مغربی کنارے میں آبادکاری منصوبوں سے کم اہم نہیں سمجھتے۔

قانونی اعتبار سے یہ تمام اقدامات بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن کی جس کے تحت قابض طاقت کو مذہبی مقدسات کی بے حرمتی یا ان کے تشخص میں تبدیلی کی اجازت نہیں۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں پہلے ہی خبردار کر چکی ہیں کہ ان پالیسیوں کا تسلسل القدس میں صورت حال کو دھماکہ خیز بنا سکتا ہے کیونکہ مسجد اقصیٰ ایک ایسی سرخ لکیرہے جس کی مذہبی اور سیاسی حیثیت غیر معمولی ہے۔

سیاسی سودے بازی کا ہتھیار

ماہرین کے مطابق عالمی برادری کی خاموشی نے قابض اسرائیل کو مزید جری کر دیا ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا مختلف علاقائی اور عالمی بحرانوں میں الجھی ہوئی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قابض ریاست زمینی حقائق کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لیے زیادہ آزادی محسوس کر رہی ہے۔

اسی تناظر میں ایک اندرونی عنصر بھی نہایت خطرناک ثابت ہو رہا ہے اور وہ ہے سنہ 2026ء میں متوقع صہیونی انتخابات۔ مسجد اقصیٰ کے امور کے ماہر اسماعیل مسلمانی کا کہنا ہے کہ انتخابی مقابلے نے مسجد اقصیٰ کو ایک سیاسی سودے بازی کے ہتھیار میں بدل دیا ہے جہاں ہر دائیں بازو یا مذہبی دھڑا آبادکاروں کی دراندازیوں کی حمایت کر کے اور ان کی موجودگی بڑھا کر اپنی انتہا پسندی ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مسلمانی کے مطابق انتہا پسند ہیکل گروہ انتخابی مہمات کے ماحول اور حکومتی اتحادوں کے اندرونی دباؤ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی زمینی پیش رفت مسلط کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں ہر نیا اشتعال اکثر قابض ریاست کے اندرونی سیاسی بحرانوں یا انتہا پسند دائیں بازو کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔

رپورٹس اس امر کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ انتخابی مقابلہ قابض حکومتوں کو آبادکاروں کی خلاف ورزیوں سے دانستہ چشم پوشی پر مجبور کرتا ہے بلکہ انہیں قانونی اور سکیورٹی تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے تاکہ دائیں بازو کے عوامی حلقوں کی حمایت کھونے سے بچا جا سکے۔

خطرے میں شناخت اور لازم رباط

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی جنگ اب صرف ایک مقام کی جنگ نہیں رہی بلکہ یہ شناخت اور بالادستی کی جنگ بن چکی ہے۔ ایک سو چوالیس دونم پر پھیلی مسجد اقصیٰ مکمل طور پر مسلمانوں کا حق ہے اور اس کے کسی حصے کو کاٹنے یا اس کے مذہبی تشخص کو بدلنے کی کوئی بھی کوشش القدس کی عرب اور اسلامی شناخت پر براہ راست حملہ ہے۔

حسن خاطر اس امر پر زور دیتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں عوامی رباط یہودیانے کے منصوبوں کے خلاف دفاع کی پہلی صف ہے۔ وہ القدس اور مقبوضہ علاقوں کے فلسطینیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مسجد میں اپنی موجودگی کو بڑھائیں اور ساتھ ہی عرب اور مسلم امہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

اسماعیل مسلمانی خبردار کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ پر صہیونی انتخابی مقابلے کا تسلسل ایک وسیع دھماکے کا سبب بن سکتا ہے جو صرف القدس تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ قبلہ اول اور تیسرے مقدس ترین مقام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چاہے جتنی دیر بھی عالمی خاموشی میں ہوتی رہے یہ تنازع کو بھڑکانے والا مستقل عنصر بنی رہے گی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan