مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی دفتر کے رُکن باسم نعیم نے کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ واضح طور پر ایک بین الاقوامی استحکامی فورس کی تعیناتی کی شق پر مشتمل ہے جس کی توثیق سلامتی کونسل بھی کرتی ہے تاہم یہ پورا عمل تاحال معطل ہے کیونکہ اس فورس کی شناخت اس کے کردار اور اس کی ذمہ داریوں پر کوئی اتفاق رائے موجود نہیں۔
باسم نعیم نے وضاحت کی کہ خطے کے اندر اور باہر جو سفارتی سرگرمیاں امریکی نگرانی میں جاری ہیں۔ وہ اب تک اس بین الاقوامی فورس کے قیام کے حوالے سے کسی عملی پیش رفت میں تبدیل نہیں ہو سکیں۔ ان کے مطابق اس کی بنیادی وجہ فورس کے فرائض دائرہ کار قواعدِ عمل اور مداخلت کی نوعیت کے بارے میں شدید ابہام ہے جبکہ کوئی واضح دستاویز بھی موجود نہیں جو اس کے کردار کو منظم کرے۔
انہوں نے بدھ کے روز روزنامہ فلسطین سے گفتگو میں زور دے کر کہا کہ اس معاملے میں حماس کا مؤقف غیر متزلزل ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی بین الاقوامی فورس کا کردار صرف سیز فائر کی نگرانی فریقین کے درمیان حد فاصل قائم رکھنے کشیدگی کو روکنے اور رپورٹس تیار کرنے تک محدود ہونا چاہیے۔ اس فورس کو نہ فلسطینی داخلی امور میں مداخلت کا حق دیا جائے اور نہ ہی غزہ کی پٹی کے انتظام میں کوئی کردار۔
اسی تناظر میں باسم نعیم نے قابض اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ دانستہ طور پر سیز فائر معاہدے کے دوسرے مرحلے میں داخلے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے کیونکہ اس مرحلے کے تحت اسے غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا سرحدی گزرگاہوں کو کھولنے اور بحالی و تعمیر نو کے عمل کے آغاز کا پابند ہونا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل مسلسل پہلے مرحلے کی شقوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے انکار کر رہا ہے حالانکہ مزاحمتی تنظیموں نے تمام تقاضے پورے کیے ہیں اس کے باوجود کہ اسرائیلی خلاف ورزیاں انتہائی سنگین رہی ہیں۔
باسم نعیم نے بتایا کہ اسرائیلی خلاف ورزیوں کی شرح روزانہ 10 سے 12 تک پہنچ چکی ہے جس کے نتیجے میں 410 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور تقریباً ایک ہزار دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی جاری ہے امدادی سامان کی آمد روکی جا رہی ہے اور رفح گزرگاہ بدستور بند ہے حالانکہ معاہدے کے مطابق زندہ اسیران کی حوالگی کے بعد اسے کھولا جانا تھا۔
سیاسی عمل
سیاسی عمل پر گفتگو کرتے ہوئے باسم نعیم نے انکشاف کیا کہ میامی شہر میں ثالثوں اور امریکہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بارے میں موصول ہونے والی آرا کو مثبت اور تعمیری قرار دیا گیا ہے خاص طور پر پہلے مرحلے کے تقاضوں اور اسرائیلی خلاف ورزیوں کے حوالے سے۔ تاہم دوسرے مرحلے میں پیش رفت اس بات سے مشروط ہے کہ امریکی ضامن قابض اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو اور ان کی انتہا پسند حکومت پر معاہدے پر عمل درآمد کے لیے کتنا دباؤ ڈالتا ہے۔
غزہ کی پٹی کے انتظام سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’حماس‘ نے اگست سنہ 2024ء سے مصر کی تجویز پر آزاد ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک کمیٹی کے قیام کے لیے بات چیت میں حصہ لیا۔ انہوں نے قاہرہ اور فلسطینی دھڑوں بشمول تحریک فتح کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو مثبت قرار دیا جس کے نتیجے میں اس ادارے کے فرائض دائرہ کار اور درجنوں مجوزہ ناموں پر ایک جامع تصور سامنے آیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس عمل کو پہلے رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے سبوتاژ کیا گیا حالانکہ حماس نے لچک کا مظاہرہ کیا تھا اور بعد ازاں قابض اسرائیل کی مخالفت نے اس فائل کو تاحال معلق رکھا ہوا ہے۔
باسم نعیم کے مطابق ٹیکنوکریٹ حکومت کا قیام میامی مذاکرات کے اہم نکات میں شامل تھا اور ثالثوں نے اس عمل کو جلد مکمل کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا تاکہ فلسطینی ادارہ شہری امور بشمول سول سکیورٹی اور گزرگاہوں کی ذمہ داری سنبھال سکے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حماس کے مؤقف کی بنیاد ہر قسم کی بیرونی سرپرستی یا بالادستی کی مکمل نفی ہے اور واضح کیا کہ فلسطینی پر حکمرانی کا حق صرف فلسطینی کو ہی حاصل ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کا معاملہ
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حوالے سے باسم نعیم نے عدالت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جس کے تحت غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے جرائم کی تحقیقات روکنے سے انکار کیا گیا اور امریکی دباؤ کو مسترد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مؤقف عالمی انصاف کے عمل کو تقویت دیتا ہے اور مظلوموں کو اس امید سے جوڑتا ہے کہ اسرائیلی جنگی مجرموں بشمول بنجمن نیتن یاھو اور ان کی حکومت کے ارکان کا احتساب ہو سکے گا۔
انہوں نے قابض اسرائیل کی بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ متعدد ممالک میں اسرائیل کے خلاف عوامی اور سیاسی سطح پر بائیکاٹ میں اضافہ ہو رہا ہے، اسلحہ سے لدی کشتیوں کو بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے سے روکا جا رہا ہے ثقافتی تقریبات سے دستبرداریاں اختیار کی جارہی ہیں اور خود امریکہ کے اندر بھی صہیونی لابی کے اثر و رسوخ کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
باسم نعیم نے بتایا کہ رائے عامہ کے جائزے امریکہ میں ایک واضح نسلی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں جو فلسطینی کاز کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلیاں طویل المدت اسٹریٹجک اہمیت رکھتی ہیں اگرچہ ان کے سیاسی ثمرات سامنے آنے میں وقت لگے گا۔
انہوں نے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ ان عالمی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک جامع فلسطینی منصوبہ تیار کرنا ناگزیر ہے کیونکہ قابض اسرائیل مکمل طور پر بیرونی خصوصاً امریکی حمایت پر انحصار کرتا ہے اور اس حفاظتی حصار کو کمزور کرنا اسرائیلی نوآبادیاتی منصوبے کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن عنصر ثابت ہو سکتا ہے۔
