مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
بین الاقوامی مالی اور سیاسی سرپرستی کے سائے میں قابض اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ مغربی کنارے میں 19 نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اقدام عرب دنیا کی شدید مذمت اور خطے کے لیے سنگین نتائج سے متعلق انتباہات کا باعث بنا۔ تاہم یہ فیصلہ کوئی منفرد واقعہ نہیں بلکہ نوآبادیاتی قبضے اور جبری بے دخلی کے اس طویل سلسلے کا تسلسل ہے جس کی بنیادیں سنہ 1948ء میں قابض اسرائیل کے قیام کے اعلان سے بھی پہلے رکھ دی گئی تھیں۔
صہیونی منصوبے کے ابتدائی دنوں ہی سے فلسطین کی سرزمین پر نام نہاد یہودی قومی وطن کے قیام کے لیے مالی وسائل کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ اسی مقصد کے تحت صہیونی تحریک نے مالیاتی فنڈز کا ایک منظم جال قائم کیا تاکہ یہودی بستیوں کی تعمیر اور یہودی ہجرت کے لیے درکار وسائل فراہم کیے جا سکیں۔ ان فنڈز نے فلسطینی زمین پر قبضے اور اس کے اصل باشندوں کی جبری بے دخلی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
فنڈ کی بنیاد کیسے رکھی گئی
ان ہی مالیاتی ہتھیاروں میں سر فہرست ” کیرین ہائیسود” فنڈ ہے جو سنہ 1920ء میں قائم کیا گیا۔ یہ فنڈ سنہ 1901ء میں قائم ہونے والے یہودی قومی فنڈ کے بعد دوسرا اہم ترین ادارہ شمار ہوتا ہے۔ کیرین ہائیسود نے یہودی ہجرت کو مالی معاونت فراہم کی، یہودی بستیوں کی تعمیر میں براہ راست حصہ لیا اور ان اداروں کے قیام میں کردار ادا کیا جو بعد میں قابض اسرائیلی ریاستی ساخت کی بنیاد بنے جن میں بجلی کی کمپنی العال ایئرلائن اور مقبوضہ بیت المقدس میں عبرانی یونیورسٹی شامل ہیں۔
فنڈ اپنی سرکاری تعریف کے مطابق تین بنیادی شعبوں پر توجہ مرکوز رکھتا ہے جن میں اسرائیلی معاشرے کو مضبوط بنانا، بیرون ملک یہودیوں سے تعلق کو گہرا کرنا اور یہودی ہجرت کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔ دہائیوں کے دوران اس فنڈ نے ساڑھے تین ملین سے زائد یہودی مہاجرین کی آمد کو مالی سہارا فراہم کیا۔
کیرین ہائیسود کی بنیاد جولائی سنہ 1920ء میں لندن میں منعقد ہونے والی عالمی صہیونی تنظیم کی سالانہ کانفرنس کے دوران رکھی گئی۔ اس وقت یہودی قومی فنڈ ہی چندہ جمع کرنے کا واحد مجاز ادارہ تھا۔ نئے فنڈ نے یہودیوں پر ایک سالانہ لازمی ٹیکس عائد کیا جسے توراتی فریضہ قرار دیا گیا تاکہ نام نہاد قومی وطن کے منصوبے کی تکمیل کی جا سکے۔
سنہ 1926ء تک فنڈ کا صدر دفتر لندن سے منتقل کر کے مقبوضہ بیت المقدس لے جایا گیا جہاں اس نے خاموشی سے فلسطینی زمینوں کی خریداری شروع کی تاکہ انہیں نوآبادیاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تقرر صہیونی ایگزیکٹو کمیٹی اور یہودی ایجنسی کرتی ہے جبکہ امریکہ میں یہ ادارہ جیوش یونائیٹڈ فنڈ کے نام سے سرگرم ہے۔
سیاسی قیادت اور اثر و رسوخ کے روابط
اس وقت فنڈ کی قیادت صموئیل گرونڈوفورج کے ہاتھ میں ہے جو قابض فوج کا سابق افسر رہ چکا ہے اور لاس اینجلس میں قونصل جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہا۔ عبرانی پریس رپورٹس کے مطابق گرونڈوفورج کے قابض حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاھو اور سابق وزیر برائے اسٹریٹجک امور رون ڈیرمر کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔
یہ فنڈ دنیا کے 45 ممالک میں سرگرم ہے اور مقبوضہ بیت المقدس میں اس کے دفتر میں تقریباً 70 ملازمین کام کرتے ہیں۔ مبینہ کفایت شعاری کے نام پر عملے میں کمی کی گئی مگر اسی دوران نوآبادیاتی منصوبوں کے لیے مالی وسائل میں اضافہ کیا گیا۔ خود گرونڈوفورج تسلیم کرتا ہے کہ فنڈ کو صرف یہودیوں سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ان عیسائیوں سے بھی مالی مدد ملتی ہے جن کے نظریات صہیونی سوچ سے ہم آہنگ ہیں۔
محقق افرائیم تلمی نے اپنی کتاب صہیونی لغت سنہ 1982ء میں کیرین ہائیسود کو ریاست کے قیام سے قبل کی ریاست کا مالی بازو قرار دیا۔ اس کے مطابق اس فنڈ نے یہودی ہجرت کی لہروں کو مالی سہارا دیا یہودی بستیوں کی تعمیر کی بنیادی ڈھانچے کو فروغ دیا اور بے روزگاروں کی مدد کی۔
سنہ 1948ء تک فنڈ 143 ملین ڈالر جمع کر چکا تھا جن کے ذریعے تقریباً پانچ لاکھ یہودیوں کی ہجرت اور آباد کاری ممکن بنائی گئی اور 257 یہودی بستیاں قائم کی گئیں۔ سنہ 1957ء میں کنیسٹ نے اسے باضابطہ طور پر ایک بین الاقوامی ادارے کے طور پر تسلیم کر لیا جو قابض اسرائیل کے لیے چندہ جمع کرتا ہے یوں اس کی سرگرمیوں کو عالمی قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔
سنہ 1982ء تک یہ فنڈ 14 لاکھ سے زائد یہودیوں کی ہجرت کی مالی معاونت کر چکا تھا 500 زرعی یہودی بستیوں کی ترقی میں شریک رہا اور ڈھائی لاکھ نوآبادیاتی رہائشی یونٹس تعمیر کرائے جبکہ عبرانی سکول قائم کیے گئے جن میں ایک لاکھ سے زائد مہاجرین کو سمویا گیا۔
نوآبادیات سے نسل کشی کی جنگ تک
کیرین ہائیسود کا کردار صرف نوآبادیاتی توسیع تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے غزہ پر نسل کشی کی جنگ کے دوران بھی قابض اسرائیل کی پالیسیوں کو سہارا دیا۔ مئی سنہ 2025ء میں عبرانی اخبار معاریو نے انکشاف کیا کہ جنگ کے آغاز سے اب تک فنڈ نے تقریباً 220 ملین ڈالر جمع کیے جنہیں مبینہ طور پر جنگ کے متاثرین ،سماجی منصوبوں اور بنیادی ڈھانچے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
فنڈ کی سرگرمیوں میں مختلف ممالک سے عطیہ دہندگان کے وفود کو قابض اسرائیل لانا شامل تھا جہاں انہوں نے یہودی آبادکاروں سے ملاقاتیں کیں ۔غزہ کے اطراف کی یہودی بستیوں کا دورہ کیا اور نوآبادیاتی تحریک کی نمایاں شخصیات سے ملے جن میں ڈینیئلا وائس بھی شامل ہے جس نے مقبوضہ زمینوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے چندہ جمع کرنے میں تیزی لانے کی کھلی اپیل کی۔
یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب مغربی کنارے میں قابض اسرائیل کی سفاکیت میں شدید اضافہ دیکھا گیا جس میں گھروں کی مسماری ،حملے اور جبری بے دخلی شامل تھیں۔ فلسطینی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان کارروائیوں کے نتیجے میں تقریباً 1100 فلسطینی شہید ہوئے اور قریب 21 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔
مبصرین کے مطابق مالی اور سیاسی سرپرستی سے چلنے والا یہ راستہ نہ صرف فلسطینی سرزمین کے بچے کھچے حصے کے لیے خطرہ ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں درج دو ریاستی حل کے امکان کو بھی مکمل طور پر ختم کر رہا ہے اور پورے خطے کو مزید دھماکوں اور عدم استحکام کی طرف دھکیل رہا ہے۔
