مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
یہودی ربی ڈیوڈ فیلڈمان جو نیتوری کارٹا تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اور صہیونیت کے خلاف ہیں، نے قابض اسرائیل کے اندر یہودی نوجوانوں کے لیے ایک پیغام جاری کیا ہے۔ اس میں انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ عبرانی ریاست سے فرار اختیار کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہودی مذہب اور صہیونیت میں بنیادی فرق موجود ہے۔ ان کے مطابق حل یہ ہے کہ قابض اسرائیل کے قبضے کو ختم کیا جائے، فلسطینی مہاجرین کو واپس آنے کی اجازت دی جائے اور یہودی ہمیشہ کی طرح فلسطینیوں اور مسلمانوں کے زیرِ حکمرانی زندگی گزاریں۔
فیلڈمان نے عربی 21 ویب سائٹ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم صرف بین الاقوامی قوانین یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہیں، بلکہ یہ “یہودی تعلیمات کے بنیادی اصولوں کے خلاف ممنوعہ جرائم” ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قتل، لوٹ مار اور ایک پوری قوم پر ظلم و ستم دین کے خلاف ہیں، خاص طور پر جب یہ جرائم فلسطین میں کیے جائیں۔
اسرائیل یہودی مذہب کی نمائندگی نہیں کرتا
فیلڈمان کے مطابق فلسطینیوں نے یہودیوں کا احترام کیا اور طویل عرصے تک ان کے محافظ رہے، قبل اس کے کہ صہیونیت بیسویں صدی کے عشرے میں فلسطین میں داخل ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ “اخلاقی اور مذہبی غلطی” ہے، اور ان جرائم کی مخالفت یہودیوں کے خلاف دشمنی یا سامیت کی مخالفت نہیں ہے، جیسا کہ صہیونی پروپیگنڈہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔
فیلڈمان اس دعوے کی بھی تردید کرتے ہیں کہ قابض اسرائیل دنیا کے یہودیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ “اسرائیل تمام یہودیوں یا یہودی مذہب کی نمائندگی نہیں کرتا”۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے بہت سے یہودی فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی مخالفت کرتے ہیں اور خود یہودی مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ زندہ ضمیر والے افراد کو اپنے آواز بلند کرنی چاہیے “دو سال کی جاری نسل کشی کے دوران اور خاموش رہنا “جرم میں اخلاقی شراکت” کے مترادف ہے۔
فیلڈمان نے کہا کہ قابض اسرائیل کے جرائم نہ صرف فلسطینیوں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ یہودیوں کو بھی عالمی سطح پر نفرت اور خطرے میں ڈالتے ہیں، کیونکہ یہ جرائم ان کے نام سے کیے جاتے ہیں۔ صہیونیت اور قابض اسرائیل کو یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کہ وہ یہودیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، نہ صرف فلسطینیوں کے خلاف جرائم کی وجہ سے بلکہ اس زور پر کہ یہ جرائم پورے یہودی معاشرے سے منسوب کیے جا رہے ہیں۔
قبضہ اور شعور کی لڑائی
فیلڈمان نے زور دیا کہ یہودی مذہب اور صہیونیت میں فرق واضح ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق یہودی مذہب “صرف ایک مذہب ہے، جو اللہ پر ایمان اور احکامات کی پیروی پر قائم ہے، اس میں سیاست، قومیت یا جرائم شامل نہیں”۔ جبکہ صہیونیت “ایک سیاسی تحریک ہے جسے ایسے افراد نے قائم کیا جو یہودی مذہب پر عمل نہیں کرتے اور دین کو جرائم کو جائز ٹھہرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں”۔
فیلڈمان کے مطابق صہیونیت کا مقابلہ “شعور اور تعلیم کی لڑائی” ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ میڈیا بنیادی معلومات چھپاتا ہے جو عوام کو حقیقت سمجھنے اور اخلاقی موقف اختیار کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
انہوں نے کہاکہ “ہم یہاں تعلیم اور شعور پھیلانے، یہودی مذہب کے موقف کو سمجھانے اور صہیونی پروپیگنڈہ کو عبور کرنے کے لیے ہیں۔ انصاف کے ساتھ کھڑے ہونا سامیت کی مخالفت نہیں ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی یہودی جو فوج میں خدمات نہیں دیتے وہ “اسرائیل پر ایمان نہیں رکھتے اور جرائم میں شامل نہیں ہوتے” مگر ان کے سترہ سال کی عمر میں پہنچنے پر انہیں خودکار طور پر مجرم قرار دیا جاتا ہے۔
فیلڈمان نے بتایا کہ بہت سے یہودی اسرائیل سے فرار نہیں کر پاتے کیونکہ ان کے ہوائی اڈے پہنچتے ہی گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔
غزہ میں جاری مقابلہ
فیلڈمان نے کہا کہ غزہ میں قتل عام آج شروع نہیں ہوا، نہ گذشتہ دو سال سے، بلکہ یہ صہیونیت کے آغاز سے تقریباً ایک صدی پرانا سلسلہ ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک “جڑ کی وجہ یعنی قبضہ” ختم نہ ہو جائے۔
فلسطینی ریاست یہودیوں کی حفاظت کرے گی
فیلڈمان نے اسرائیلیوں کے لیے واضح پیغام دیا کہ صہیونیت کی حفاظت اور وعدے شروع سے ہی غلط تھے، اور اس نظام کا استمرار کسی کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ سب کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ وہ یہودیوں کو اسرائیل چھوڑنے کی ترغیب دیتے ہیں اور صہیونیت سے دور ہو کر اس کے قیام سے قبل کی حالت میں واپس جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
فیلڈمان نے کہا کہ وہ موجودہ دو ریاستی حل کی حمایت نہیں کرتے، صرف فلسطینی زمینوں کی واپسی کا حل قبول کرتے ہیں اور کسی صہیونی ریاست کے باقی رہنے کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ انصاف نہیں ہے۔
حل صرف قابض اسرائیل کے قبضے کو مکمل ختم کرنے، فلسطینیوں کے حقوق بحال کرنے اور مہاجرین کی واپسی کی اجازت دینے میں ہے اور فلسطینیوں کو اپنی حکومت منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے۔
تاریخی تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ “یہودی ریاست” ناکام رہی، جبکہ فلسطینی حکومت، بشمول اسلامی حکمرانی، یہودیوں کے تحفظ اور ان کے مذہب کے احترام کی صلاحیت رکھتی ہے۔
فیلڈمان نے کہا کہ بعض عرب حکومتوں اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی حمایت “اندھی” ہے، اور اخلاقی و دینی بغاوت ہے، اور سیاسی رہنماؤں کو صہیونی پروپیگنڈہ سے آگے بڑھ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہیے “انسانیت کے دفاع میں”۔
