مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
تحریر: ڈاکٹر صابرابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
کیا اسرائیل نے لبنان میں جنگ جیت لی؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہم اسرائیلی جنرل کوہاوی کے نظریات سے متعلق حالیہ دنوں غاصب ریاست اسرائیل کی پالیسیوں کے زاویہ نگاہ سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی یہ بات درست ہے کہ اسرائیل نے کوہاوی ڈاکٹرائن کا فاتحانہ استعمال کیا اور لبنان میں جنگ جیت لی ہے ؟
کوہاوی ڈاکٹرائن دراصل اسرائیلی فوج (IOF) کے سابق چیف آف اسٹاف جنرل آویو کوہاوی کے دورِ قیادت (2019 تا 2023) میں متعارف کرائی گئی ایک جدید عسکری حکمتِ عملی ہے۔ یہ کوئی باقاعدہ تحریری فوجی نظریہ نہیں بلکہ مختلف پالیسیوں، عملی تصورات اور جنگی ترجیحات کا مجموعہ ہے، جس کا بنیادی مقصد جنگ کو مختصر، فیصلہ کن اور مکمل طور پر ٹیکنالوجی پر مبنی بنانا ہے۔اس ڈاکٹرائن کا مرکزی نعرہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ:جنگ کو طویل ہونے سے پہلے ہی دشمن کی عسکری صلاحیت کو مفلوج کر دیا جائے۔مختصراً، کوہاوی ڈاکٹرائن ایک ایسی جنگی حکمتِ عملی ہے جو:طاقت، رفتار، انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دشمن کو فوری طور پر مفلوج کرنے پر مبنی ہے۔
یہ نظریہ پانچ بنیادی اصولوں پر قائم ہے
1- پیشگی حملے اور زبردست قوت: کسی بھی ممکنہ خطرے کا فوری اور فیصلہ کن طور پر مقابلہ کیا جانا چاہیے، اس سے پہلے کہ وہ حقیقی حملے میں بدل جائے۔ اس کا مقصد مخالف کو مکمل طور پر بے اثر کرنا اور دیرپا ڈیٹرنس قائم کرنا ہے۔
2-مرتکز فضائی طاقت: فوکسڈ فضائی حملے دشمن کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، بشمول ہتھیاروں کے ڈپو، میزائل اڈے، اور فوجی پناہ گاہیں۔بڑے پیمانے پر زمینی حملوں کی ضرورت کو کم کرتے ہوئے جدید ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کاروائی کی درستگی کو بڑھایا جاتا ہے۔
3- ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت پر بھروسہ: کوہاوی نے اعلیٰ درجے کی نگرانی، ڈرونز، درست طریقے سے رہنمائی کرنے والے میزائلوں، اور دفاعی نظام جیسے آئرن ڈوم کو موثر طریقے سے کارروائیوں اور شہری ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے ترجیح دی۔
4- طویل تنازعات کو کم سے کم کرنا: یہ نظریہ مختصر، فیصلہ کن جنگوں کی کوشش کرتا ہے تاکہ فوج اور ریاستی وسائل کو زیادہ سے زیادہ استعمال نہ کیا جا سکے۔
5- جامع ڈیٹرنس: انٹیگریٹڈ ڈیٹرنس فوج سے آگے بڑھتا ہے، جس کا مقصد جارحیت کے بارے میں سوچنے والے کسی بھی مخالف پر اقتصادی اور سیاسی اخراجات اٹھانا ہے۔
اکتوبر 2023کے بعد سے عملی طور پر، اسرائیل نے لبنان میں اپنی 2024 کی مہم کے دوران کوہاوی کے نظریے کا اطلاق کیا۔فوج نے نظریے کے پہلے تین ستونوں پر عمل کیا یعنی قبل از وقت حملے، مرکوز فضائی مہمات، اور ٹیکنالوجی سے چلنے والی کارروائیاں انجام دی ہیں۔اس میں پیجرز آپریشن، مزاحمت کی میزائل صلاحیتوں کو نشانہ بنانا، حزب اللہ کے اہم فوجی رہنماؤں کو ہدف بنا کر قتل، اور سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین جیسی اعلیٰ شخصیات کا قتل شامل تھا۔
کوہاوی ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل نے درج بالا تمام اقدامات کو انجام دیا اور ان ہائی پروفائل کارروائیوں کے باوجود، اسرائیل کو بالآخر 75000 سے زیادہ فوجیوں کو متحرک کرنا پڑا اور بڑے پیمانے پر زمینی حملے پر مجبورہونا پڑا۔ حالانکہ کوہاوی کا نظریہ واضح طور پر مرتکز فضائی طاقت پر زور دیتا ہے، جو دشمن کے بنیادی ڈھانچے کو درستگی کے ساتھ تباہ کرنے اور زمینی کارروائیوں کی ضرورت کو کم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
ان حملوں کے بعد بھی، اسرائیل کو پھر بھی زمینی کارروائی کرنا پڑی، اور وہ لبنانی سرزمین پر قبضہ کرنے یا حزب اللہ کو فیصلہ کن طور پر بے اثر کرنے میں ناکام رہا۔
کوہاوی ڈاکٹرائن سے حاصل ہونے والے فوائد، جیسے کہ لیڈروں کو ختم کرنا اور بنیادی ڈھانچے کو متاثر کرنا، اسٹریٹجک فتح میںشمار نہیں کئے جا سکتے کیونکہ آخر کار اسرائیل فوج کو زمینی کاروائیوں کی جانب آنا پڑا۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کیونکہ اسرائیل حزب اللہ کے خلاف جس کوہاوی ڈاکٹرائن کو فیصلہ کن تصور کئے ہوئے تھا وہ نطریہ فیصلہ کن ثابت نہیں ہوا اور حزب اللہ نے ان تمام تر بڑی کاروائیوں اور حملوں کے باوجود غاصب اسرائیلی فوج کو مجبور بھی کیا اور اپنی حکمت عملی سے انحراف کی طرف موڑ دیا۔ تزویراتی سطح پر اگر بات کی جائے تویقینی طور پر یہ حزب اللہ کی بی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
اسی طرح نیتن یاہونے اپنی تقریر میں اس بات کا اعتراف کیا کہ حزب اللہ کے فوجی ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باجوود بھی ہزاروں میزائل اور راکٹس ہیں جو تل ابیب اور شمال فلسطین کے صیہونی ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہےہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ کوہاوی کے نظریہ کے مطابق جو حکمت عملی اسرائیلی غاصب فوج نے اپنائی تھی اس کے مطابق تو جنگ کا دورانیہ مختصر ہونا چاہئیےتھا لیکن یہ جنگ تو طول پکڑتی ہی چلی گئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ کوہاوی ڈاکٹرائن حزب اللہ کے مقابلہ میں بری طرح ناکام رہی ۔کیونکہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ جنگ طویل ہو سکتی ہے اور یہ سب کچھ کوہاوی ڈاکٹرائن او ر اسرائیلی فوج کی تما م تر حکمت عملیوں کے برخلاف تھا اور اس سب کچھ کو ڈیزائن کرنے والے حزب اللہ کے لوگ تھے جنہوںنے اسرائیل کو اس کے مقاصد سمیت طے کردہ اہداف میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
کوہاوی نظریہ کے مطابق طویل تنازعات کو کم کرنے کے نظریے کا ہدف بھی ڈرامائی طور پر ناکام رہا۔لبنان میں، مہم 66 دن تک جاری رہی، جو کہ کوہاوی کے تصور کردہ مختصر، فیصلہ کن ٹائم لائن سے کہیں زیادہ تھی، اور حزب اللہ کی کسی فیصلہ کن فتح یا خاتمے کے بغیر ختم ہوئی۔
اسی طرح غزہ میں بھی فیصلہ کن فتح یا مزاحمت کو ختم کیے بغیر دو سال کے عرصے میں اس نظریے کا اطلاق کیا گیا۔دونوں صورتوں میں، اسرائیل کی کارروائیوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ صرف قبل از وقت حملے اور تکنیکی برتری فوری حل کی ضمانت نہیں دے سکتے، اور طویل تنازعات فوجی اور سیاسی وسائل کو دباتے رہتے ہیں۔
اسرائیلی سرکاری بیانات میں فتح کا دعویٰ کیا گیا ہے، جس میں حزب اللہ کو پہنچنے والے نقصان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔تاہم، نظریے کے اطلاق کے باوجود، اس کے وسیع تر سٹریٹیجک مقاصد نامکمل رہےہیں۔حزب اللہ زندہ رہی، آپریشنل صلاحیت کو برقرار ہے، اور اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے، لبنان کا دفاع کرنے والی کلیدی قوت کے طور پر اپنے کردار کو برقرار رکھتے ہوئے، مؤثر طریقے سے اسرائیل کے اسٹریٹجک منصوبوں کو ناکام بنا نے میں حزب اللہ کا کردار آج بھی نظر آ رہاہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل کی فتح کی سرکاری بیان بازی حقیقت پر پردہ ڈالتی ہے۔ جنگ نے اس کی فوجی منصوبہ بندی اور حکمت عملی میں بنیادی خامیوں کو بے نقاب کیا۔کوہاوی کا نظریہ ناکافی ثابت ہوا۔جنگ نے یہ ظاہر کیا کہ اعلیٰ فائر پاور اور جدید نظام کے باوجود اسرائیل فیصلہ کن نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا جس کا اس نے دعویٰ کیا تھا۔بہر حال آج بھی غزہ اور لبنان میں مزاحمت زندہ ہے اور مزاحمت کے سامنے امریکہ اور اسرائیل کی بے بسی ہر محاذ پر نظرا ٓ رہی ہے۔