مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار اور مقامی و عالمی انسانی حقوق کی رپورٹس کے مطابق سنہ 2025ء کے دوران مغربی کنارے میں قابض اسرائیلی آبادکاروں کے فلسطینی عوام پر حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
یہ حملے محض جسمانی تشدد تک محدود نہیں رہے بلکہ گھروں اور املاک کی تباہی، درختوں کو نذر آتش کرنا، فصلوں کی لوٹ مار اور فلسطینیوں کو ان کی زمینوں تک رسائی سے روکنا بھی اس سفاک مہم کا حصہ ہے، جس نے روزمرہ زندگی کو زمین پر ڈٹے رہنے کی مسلسل جدوجہد بنا دیا ہے۔
سال بھر میں سرکاری اداروں نے قریب 740 حملے دستاویزی شکل میں محفوظ کیے، جن کے نتیجے میں 340 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے اور تقریباً 200 آبادیوں کو نقصان پہنچا۔ یہ شرح سنہ 2006ء سے ریکارڈ کے آغاز کے بعد سالانہ بنیاد پر سب سے زیادہ ہے، جس کا مطلب روزانہ اوسطاً چار حملے ہیں۔
اکتوبر سنہ 2025ء میں زیتون کی فصل کے موسم کے دوران حملے اپنی انتہا کو پہنچ گئے، جہاں صرف اسی ایک ماہ میں 126 انفرادی حملے ریکارڈ ہوئے، جو بستیوں سے متصل علاقوں میں منظم تشدد کے واضح اضافے کی عکاسی کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ متاثرہ علاقے
مغربی کنارے کے شمالی علاقے سب سے زیادہ زد میں رہے، بالخصوص نابلس، جنین اور طولکرم گورنریوں میں قابض آبادکاروں نے بار بار زرعی زمینوں اور کھیتوں کو نشانہ بنایا۔
وسطی علاقوں میں رام اللہ اور بیت لحم گورنریوں میں فصل کے موسم کے دوران حملوں میں اضافہ دیکھا گیا، جبکہ جنوبی حصے میں الخلیل اور اریحا سمیت علاقوں میں اگرچہ حملوں کی تعداد کم رہی، تاہم شدت کے اعتبار سے یہ سب سے زیادہ سفاک تھے، جہاں فائرنگ اور املاک کو جلانے جیسے واقعات سامنے آئے۔
زرعی موسموں سے حملوں کا گہرا تعلق
رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملے براہ راست زرعی سرگرمیوں سے جڑے ہوئے ہیں، خصوصاً زیتون اور کٹائی کے موسم میں، جس کے باعث فلسطینی کسان مسلسل نشانے پر رہتے ہیں۔
یہودی آباد کاری کے امور کے ماہر محقق رائد موقدی نے وضاحت کی کہ یہ حملے کوئی الگ تھلگ واقعات نہیں بلکہ ایک منظم انداز کا حصہ ہیں، جن کا مقصد زمینوں پر قبضہ اور معاشرتی استحکام کو کھوکھلا کرنا ہے۔
انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کو بتایا کہ سنہ 2025ء کو پچھلے برسوں سے ممتاز کرنے والی بات حملوں کی ہمہ گیری ہے، یہ صرف فلسطینیوں پر جسمانی تشدد تک محدود نہیں بلکہ زرعی املاک کی تباہی، درختوں کو جلانا اور کسانوں کو اپنی زمینوں تک پہنچنے سے روکنا بھی اس میں شامل ہے۔
موقدی کے مطابق یہ حکمت عملی فلسطینی آبادیوں پر معاشی اور نفسیاتی دباؤ میں کئی گنا اضافہ کرتی ہے اور روزمرہ زندگی کو زمین پر قائم رہنے کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ بنا دیتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آبادکاری کی توسیع اور نئی کالونیل چوکیوں کا قیام رابطہ علاقوں کو وسیع کر رہا ہے اور ٹکراؤ کے امکانات بڑھا رہا ہے۔ آج جو طرز عمل دکھائی دے رہا ہے وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ حملے محض انفرادی بدنظمی نہیں بلکہ ایسی منظم پالیسیوں سے جڑے ہیں جن کا مقصد بتدریج آبادی کو بے دخل کرنا اور آبادکاروں کے لیے اسٹریٹجک قدم جمانا ہے۔
انہوں نے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا کہ فلسطینی دوہری قیمت ادا کر رہے ہیں، ایک طرف زمین کا نقصان اور دوسری طرف اپنی جان اور املاک پر مستقل خطرہ، جو شہریوں کے تحفظ اور حملہ آوروں کو کٹہرے میں لانے کے لیے فوری اور سنجیدہ عالمی مداخلت کی متقاضی صورتحال ہے۔
قابض فوج کی ملی بھگت
اخبار یدیعوت احرونوت کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قابض اسرائیل کے بعض فوجی ان حملوں میں براہ راست شریک ہوتے ہیں، یا تو آبادکاروں کو سکیورٹی فراہم کر کے یا ان فلسطینیوں پر حملہ کر کے جو اپنے دفاع کی کوشش کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم یش دین نے اکتوبر کے دوران 54 پُرتشدد حملوں کو دستاویزی شکل دی اور اس بات کی نشاندہی کی کہ قابض حکام آبادکاروں کو وسیع چھوٹ دے رہے ہیں۔
تنظیم کے مطابق فوجی اکثر مداخلت نہیں کرتے اور بعض اوقات خود شریک ہو جاتے ہیں یا حملوں سے آنکھیں چرا لیتے ہیں، جبکہ واضح جرائم کے باوجود کسی آبادکار کو حراست میں نہیں لیا جاتا، جو قابض اسرائیلی سکیورٹی نظام میں سنگین بگاڑ کی علامت ہے۔
جرائم کی ڈیجیٹل نمائش
یہودی ملیشیائیں اپنے حملوں کو واٹس ایپ اور ٹیلیگرام گروپس میں ریکارڈ کر کے فخر سے پھیلاتی ہیں، جن میں گھروں اور گاڑیوں کو جلانا، زیتون کے درخت توڑنا اور مویشیوں اور فصلوں کی چوری شامل ہے۔ یہ سب کچھ قابض حکام کی جانب سے کسی جواب دہی کے بغیر ہوتا ہے۔
زیتون کے موسم کے دوران درجنوں گھروں اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور ہزاروں زیتون کے درخت کاٹے گئے، جبکہ توڑ پھوڑ اور چوری کے سینکڑوں واقعات ریکارڈ ہوئے، جو ان جرائم کی منظم نوعیت اور نگرانی کے مکمل فقدان کو بے نقاب کرتے ہیں۔
انسانی اور سکیورٹی اثرات
اقوام متحدہ کے مطابق ان مسلسل حملوں نے مغربی کنارے میں انسانی صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے جہاں زرعی پیداوار کا نقصان، بنیادی املاک کی تباہی اور تحفظ کے احساس کا خاتمہ عام ہو چکا ہے، بالخصوص ان کسانوں اور خاندانوں میں جو رابطہ علاقوں کے قریب رہتے ہیں۔
یہ جاری تشدد سماجی اور معاشی استحکام کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے اور فلسطینی معاشروں پر نفسیاتی دباؤ کو ناقابل برداشت حد تک بڑھا رہا ہے۔
تاریخی تقابل
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 2025ء میں حملوں کی تعداد سنہ 2024ء کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ رہی، جب 675 حملے ریکارڈ ہوئے تھے، جبکہ سنہ 2025ء میں زیتون کے موسم کے وسط تک یہ تعداد 692 تک پہنچ چکی تھی۔ اندازہ ہے کہ سال کے اختتام تک اس میں تقریباً 25 فیصد اضافہ ہوگا، جو اسے سنہ 2006ء کے بعد تشدد اور حملوں کے لحاظ سے سب سے خونی سال بنا دے گا۔
