مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے بیرونِ ملک سربراہ خالد مشعل نے قابض اسرائیل کے قبضے اور کسی بھی قسم کی بالادستی کو دوٹوک انداز میں مسترد کرتے ہوئے مغرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے مؤقف پر نظرِ ثانی کرے، فلسطینیوں کی آزادی کی امنگوں کی حمایت کرے اور قابض اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خاتمے کے لیے عملی کردار ادا کرے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں صحافی جیرمی اسکاہل کے ساتھ ویب سائٹ ڈراپ سائٹ کو دیے گئے ایک جامع انٹرویو میں خالد مشعل نے کہا کہ ہم ہر اس فریق کی مخالفت کرتے ہیں جو ہمارے معاملات میں مداخلت کرے یا ہمارے دشمن کی حمایت کرے۔ تاہم ہم امریکہ ،یورپ اور پوری دنیا کے ساتھ ثقافتی اور تہذیبی تبادلے کے لیے کھلے دل سے تیار ہیں جیسا کہ یہ خطہ تاریخ میں تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اور باہمی مفادات کے نظم و نسق کی روایت رکھتا ہے۔
انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ حماس اور دیگر فلسطینی سیاسی دھڑوں کے ساتھ براہِ راست اور سنجیدہ مذاکرات کے حقیقی عمل میں داخل ہوں تاکہ دوستانہ دو طرفہ تعلقات قائم کیے جا سکیں۔
نسل کشی کی جنگ
خالد مشعل نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں قابض اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی بے مثال جارحیت درحقیقت نسل کشی کی جنگ ہے جو دہائیوں قبل یہودیوں کے ساتھ پیش آنے والے المیے کی ہولناک تکرار ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج وہی فریق فلسطینی عوام کے خلاف ہولوکاسٹ اور نسل کشی کی جنگ مسلط کر رہا ہے اور محض 365 مربع کلومیٹر سے بھی کم رقبے پر پھیلی ایک چھوٹی سی پٹی میں بدترین اور مہلک ترین تباہ کن ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں۔
اسلحہ حوالے کرنے کا معاملہ
خالد مشعل نے مزاحمتی فورسز کا اسلحہ حوالے کرنے کے خیال کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قابض اسرائیل پر کسی بھی درجے میں اعتماد ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کو اسرائیلیوں پر اعتماد ہے نہ ہی قابض اسرائیل پر۔ اسرائیل کی تاریخ قتلِ عام، بدعہدی اور ہر معاہدے کی خلاف ورزی سے بھری پڑی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بنجمن نیتن یاھو اور اس سے پہلے آنے والے تمام اسرائیلی گماشتوں کا ریکارڈ قتلِ عام سے اٹا ہوا ہے۔
خالد مشعل نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ قابض اسرائیل کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہاں تک کہ یاسر عرفات جنہوں نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے تھے انہیں زہر دے کر شہید کیا گیا جبکہ محمود عباس جنہوں نے انتہائی کشادہ دلی کے ساتھ اوسلو اور امن عمل کو آگے بڑھایا آج رام اللہ میں اپنے ہی ہیڈکوارٹر میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور ان کے پاس کوئی حقیقی اختیار نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج بنجمن نیتن یاھو بزلئیل سموٹریچ اور ایتمار بن گویر فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کر رہے ہیں اور فلسطینی ٹیکسوں کی رقوم ضبط کیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی ثقافت تاریخ اور زمینی حقیقت دونوں کے اعتبار سے اسرائیلی پر اعتماد کی نفی کرتی ہے۔ وہ ایک مجر اور غدار دشمن ہے۔ اسی لیے فلسطینیوں کا اپنے اسلحے سے وابستہ رہنا فطری امر ہے۔ یہ اسلحہ کوئی اضافی یا ثانوی چیز نہیں بلکہ قبضے کے سائے میں ہمارے وجود سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کسی آزاد معاشرے میں شہری سیاسی ذرائع سے اپنی ریاست سے معاملہ کرتا ہے مگر جب قوم قبضے کے تحت ہو تو مزاحمت ایک فطری اور ناگزیر راستہ بن جاتی ہے۔
خالد مشعل نے زور دیا کہ فلسطینیوں کی مزاحمت اور اسلحے سے وابستگی بالکل فطری ہے جیسا کہ دنیا بھر کی اقوام نے قابض قوتوں کے خلاف کیا۔
اسلحے سے متعلق حکمتِ عملی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب ٹرمپ منصوبہ پیش کیا گیا تو حماس کا مؤقف واضح تھا کہ اسلحہ سے دستبرداری کے راستے پر نہیں جایا جائے گا کیونکہ یہ ٹکراؤ تشدد اور براہِ راست تصادم کا سبب بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی سے ٹکراؤ نہیں چاہتے مگر طاقت کے زور پر اسلحہ چھینے جانے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔
انہوں نے اس ضمن میں چند بنیادی ضمانتوں کی وضاحت کی۔
اول ۔ حماس اور مزاحمتی قوتوں کے ہتھیار محفوظ رکھے جائیں، نہ استعمال ہوں نہ نمائش کی جائے اور سنجیدہ خود مختار فیصلے کے تحت ایک طرف رکھ دیے جائیں کیونکہ حماس کے پاس وعدے کی پاسداری کا مضبوط ریکارڈ موجود ہے۔
دوم: نام نہاد بین الاقوامی استحکام فورسز کو سرحدوں پر فریقین کے درمیان حدِ فاصل کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے غزہ کے اندر اس کا کردار قبول نہیں، جیسا کہ بنجمن نیتن یاھو چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں سے ٹکرا کر ان کا اسلحہ چھینا جائے۔
سوم : ہم نے جنگ بندی کی پیشکش کی جو حماس اور فلسطینی مزاحمت کی سنجیدگی کا ثبوت ہے۔ یہ جنگ بندی پانچ سات یا دس سال کی ہو سکتی ہے جس پر اتفاق ہو جائے اور جنگ بندی کا مطلب ذمہ دارانہ پابندی ہے۔
چہارم : تینوں ثالث ممالک اور ان کے ساتھ وہ عرب اور اسلامی ممالک جن کے حماس، جہاد اسلامی اور مزاحمتی قوتوں سے اچھے تعلقات ہیں فلسطینی فریق کے لیے اسرائیلی اور امریکی فریق کے سامنے ضمانتیں فراہم کر سکتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ اصل سوال فلسطینی فریق کی پاسداری نہیں بلکہ مسئلہ اسرائیلی فریق ہے جو اپنی فطرت اور تاریخ کے اعتبار سے غدار ہے اور اس کے پاس مہلک اسلحہ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ قابض اسرائیل کو کیسے محفوظ بنایا جائے بلکہ یہ ہے کہ نہتے فلسطینی عوام کو کیسے تحفظ دیا جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ مزاحمتی اسلحہ کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ریاستوں کی طرح مسلح ہیں۔ ہم ایک تقریباً نہتی قوم ہیں اور ہم نے صرف اتنا اسلحہ حاصل کیا جتنا اپنے دفاع کے لیے ممکن تھا۔
خالد مشعل نے کہا کہ امریکی حقیقت پسندانہ ذہنیت اور صدر ٹرمپ کی حقیقی خواہش کہ غزہ کو ایک مسلسل رستے ہوئے زخم کے طور پر باقی نہ رہنے دیا جائے جو دنیا کو بے چین اور انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے نیز مغربی دارالحکومتوں میں قابض اسرائیل کی سفاکیت سے بڑھتی اکتاہٹ ایک حقیقی موقع پیدا کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس واضح ضمانتوں اور پاسداری کے ثابت شدہ ریکارڈ کے ساتھ یہ موقع پیش کر رہی ہے جبکہ اس کے سوا کوئی بھی راستہ عملی ہے نہ ہمارے لیے قابلِ قبول۔
حماس کے خاتمے کی سازشیں
امریکی منصوبوں کے حوالے سے جن میں حماس کو جڑ سے اکھاڑنے کی بات کی جاتی ہے خالد مشعل نے کہا کہ اگر امریکہ خطے میں استحکام چاہتا ہے تو اسے آگ پر تیل ڈالنے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ اس سے عدم استحکام بڑھے گا۔
انہوں نے واشنگٹن کو عراق جیسے ناکام تجربات دہرانے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ حماس محض ایک عسکری تنظیم نہیں بلکہ ایک مزاحمتی تحریک ہے جس کا عسکری ونگ بھی ہے اور سماجی پہلو بھی۔
انہوں نے کہا کہ حماس فلسطینی عوام میں گہرائی تک پیوست ہے اور معاشرے کے ہر شعبے کا حصہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دو دہائیوں کے دوران حماس نے معاشرے کو مؤثر انداز میں چلایا اپنی غلطیوں سے سیکھا تجربہ حاصل کیا اور استحکام پیدا کیا۔ اہلِ غزہ جانتے ہیں کہ حماس سے قبل سکیورٹی کی صورتِ حال بگڑی ہوئی تھی اور بے قابو گروہ سرگرم تھے۔
انہوں نے کہا کہ حماس نے اس صورتِ حال کو اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ سنبھالا اور عوامی امن و سلامتی کو یقینی بنایا باوجود اس کے کہ اس دوران ظالمانہ محاصرہ مسلط رہا۔
انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں کسی غیر فلسطینی اقتدار کے قیام کی کوئی بھی کوشش ناقابلِ قبول اور ناکامی سے دوچار ہوگی اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ صرف حماس سے نہیں بلکہ پورے فلسطینی معاشرے سے ٹکراؤ ہوگا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ میں کسی بھی غیر ملکی قوت یا انتظامیہ کو فلسطینی قابض طاقت کے طور پر دیکھیں گے جس سے لازمی طور پر تصادم پیدا ہوگا کیونکہ فلسطینی عوام یہ قبول نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام خود اپنی حکمرانی کے حق دار ہیں اور اپنے فیصلے خود کریں گے۔
خالد مشعل نے بتایا کہ حماس نے راستہ مختصر کرنے کے لیے عملی قدم اٹھایا اور انتظامیہ سے واقعی دستبردار ہو گئی نہ کہ محض نعرے کی حد تک اور یہ معاملہ مصر قطر اور ترکیہ جیسے ثالثوں کے سپرد کیا گیا تاکہ فلسطینی فلسطینی مکالمے کے ذریعے ایک ٹیکنوکریٹ انتظامیہ قائم کی جائے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ تین ہفتے قبل اس تجویز کو حتمی شکل دی گئی جس میں 40 باوقار فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے نام پیش کیے گئے اور ان میں سے آٹھ کا انتخاب ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل تیزی سے مکمل ہونا تھا مگر تاخیر اس لیے ہوئی کہ سب قابض اسرائیل کے دوسرے مرحلے کے طرزِ عمل اور امریکہ کے دباؤ کے منتظر تھے۔
انہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عمل آئندہ سال کے آغاز میں شروع ہو سکتا ہے مگر رکاوٹ قابض اسرائیل ڈال رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیز فائر معاہدے کے پہلے مرحلے کی شرائط پوری نہیں کی گئیں کیونکہ قابض اسرائیل نے امداد رہائش خیموں اور شیلٹرز کی فراہمی ،غذائی اور طبی امداد ہسپتالوں کی بحالی اور رفح کراسنگ کے دونوں اطراف کھولنے سے متعلق وعدے توڑے جیسا کہ ٹرمپ منصوبے اور سلامتی کونسل کی قرارداد میں طے تھا۔
اُنہوں نے زور دیا کہ حماس اور فلسطینی مزاحمت نے ہر شق پر عمل کیا جبکہ قابض اسرائیل نے متعدد وعدے پامال کیے اور مختلف بہانوں سے قتل و غارت جاری رکھی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ بحیثیت فلسطینی شہری یہ ہے کہ پہلے مرحلے کی تمام شرائط پر قابض اسرائیل کو عمل درآمد پر مجبور کیا جائے اس کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بڑھا جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ جس طرح حماس نے پہلے مرحلے پر عمل کیا اسی طرح دوسرے مرحلے کے لیے بھی تمام فلسطینی قوتیں ثالثوں کے ساتھ سنجیدہ مکالمے کے ذریعے وعدہ بند ہیں مگر بنجمن نیتن یاھو کی من مانی کے مطابق نہیں بلکہ طے شدہ معاہدے کے مطابق ہوگا۔
خالد مشعل نے کہا کہ فلسطینی عوام قبضے کے تحت جینا قبول نہیں کرتے اور قبضے سے نجات کے دو ہی راستے ہیں یا تو ہم مزاحمت کریں جو بین الاقوامی قانون کے تحت ہمارا حق ہے یا دنیا ہماری مدد کرے جیسا کہ ماضی میں دیگر اقوام کے ساتھ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم آسان راستہ ترجیح دیتے ہیں مگر جب دنیا ناکام ہو جائے تو مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
سیاسی میدان میں انہوں نے کہا کہ حماس حقیقی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے نہ کہ وہ جو امریکہ یا قابض اسرائیل مسلط کرنا چاہتے ہیں جہاں نتائج پہلے سے طے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام آزاد ، شفاف انتخابات کرانے اور خود اپنے نظام کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو ایک مضبوط اور باوقار قیادت کو جنم دیں گے۔
اپنی حکمتِ عملی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اصولی بھی ہیں اور حقیقت پسند بھی۔ ہم قبضے،یا بالادستی، زمین اور القدس پر حقوق سے دستبرداری اور حقِ واپسی سے انکار قبول نہیں کرتے اور اپنے قیدیوں کی رہائی سمیت قومی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
ساتھ ہی ہم سیاسی طور پر حقیقت پسند ہیں اور اپنے فلسطینی شراکت داروں بشمول رام اللہ کی اتھارٹی اور فتح کے ساتھ معاملات کرتے ہیں نیز عرب اسلامی دنیا اور عالمی برادری سے بھی رابطے رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سنہ 1967ء کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کے قیام کے کسی بھی سنجیدہ منصوبے کے لیے ہم تیار ہیں مگر موجودہ اسرائیلی پالیسیوں آبادکاری بزلئیل سموٹریچ اور ایتمار بن گویر کی سوچ اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں جو اسرائیلی حکمتِ عملی کے جوہر کی عکاس ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی صورتِ حال آبادکاری انسانی حقوق کی پامالیاں جبری بے دخلی کی کوششیں اور نسل کشی کا جرم ثابت کرتا ہے کہ قابض اسرائیل فلسطینی حقوق اور ریاست کو تسلیم نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر علاقائی اور عالمی سطح پر سنجیدہ پابندی کے تحت قابض اسرائیل کو 4 جون سنہ 1967ء کی سرحدوں تک بشمول القدس پر قبضہ واپس لیے جانے پر مجبور کیا جائے تو حماس فلسطینی ریاست کے قیام کو قبول کرے گی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک حقیقی جمہوری فلسطینی ریاست تعمیر کریں گے نہ کہ آج کے اسرائیل کی طرح جو جمہوریت کا دعویٰ کرتا ہے مگر اسے اپنے شہریوں پر بھی نافذ نہیں کرتا۔
