مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
قابض اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت کے بارے میں اپنائے گئے رویے میں ایک بنیادی اور خطرناک تبدیلی کی عکاسی کرتے ہوئے قابض اسرائیلی وزارتِ دفاع اور قابض بلدیہ القدس کے درمیان ایک سکیورٹی تعاون کا معاہدہ طے پا یا ہے جس کا مقصد مقبوضہ شہر کے سکیورٹی اور ادارہ جاتی ڈھانچے کو ازسرنو تشکیل دینا ہے۔
یہ قدم محض کسی انتظامی یا خدماتی منصوبے تک محدود نہیں بلکہ اس کے اندر گہرے اسٹریٹجک مضمرات پوشیدہ ہیں کیونکہ اس سے قابض اسرائیل کی منظم کوشش واضح ہوتی ہے کہ القدس کو ایک مستقل سکیورٹی اور فوجی مرکز میں تبدیل کیا جائے تاکہ زمین پر نئی حقیقتیں مسلط کی جا سکیں اور شہر کے کردار کو قابض اسرائیلی سکیورٹی نظریے کے مطابق نئے سرے سے متعین کیا جا سکے۔ اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ القدس کے سیاسی اور قانونی مستقبل پر بھی سنگین سوالات جنم لے رہے ہیں۔
یہ معاہدہ گذشتہ پیر کے روز قابض اسرائیلی وزیرِ دفاع یسرائیل کاٹز ،وزارتِ سکیورٹی کے ڈائریکٹر جنرل امیر برعام قابض بلدیہ القدس کے سربراہ موشے لیئون اور بلدیہ کی ڈائریکٹر جنرل اریئیلا رجوان کی موجودگی میں منظور کیا گیا۔ عبرانی میڈیا کی بھرپور کوریج نے اس اقدام کی اہمیت کو قابض اسرائیلی اداروں کے لیے نمایاں کر دیا۔
سکیورٹی ڈھانچے کی القدس کے قلب میں منتقلی
معاہدے کی نمایاں شقوں میں القدس کے داخلی راستے پر قابض اسرائیلی سکیورٹی نظام کی ایک شاخ کا قیام شامل ہے جہاں فوجی تحقیق اور ترقی کے شعبے سے وابستہ ایک بڑا کمپلیکس بنایا جائے گا جو جدید جنگی ذرائع اور اعلیٰ ٹیکنالوجی پر مبنی بنیادی ڈھانچے کی تیاری کا ذمہ دار ہوگا۔
معاہدے کے تحت قابض فوج کے مستقل سروس انجام دینے والے اہلکاروں کے لیے رہائشی منصوبے تعمیر کیے جائیں گے قابض فوج کا ایک میوزیم قائم کیا جائے گا القدس میں فوجی بھرتی دفتر کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔ قابض فوج کے متعدد عسکری کالجز کو مقبوضہ شہر منتقل کیا جائے گا جہاں سینکڑوں افسران اور اعلیٰ عسکری عہدوں پر فائز افراد تعلیم و تربیت حاصل کریں گے۔
دہائیوں بعد غیر معمولی عسکری ازسرنو ترتیب
مبصرین کے مطابق یہ معاہدہ مقبوضہ بیت المقدس کے اندر دہائیوں کے بعد قابض اسرائیل کی سب سے بڑی فوجی اور ادارہ جاتی تشکیل نوہے جس کے نتیجے میں شہر کو محض ایک اعلان شدہ سیاسی دارالحکومت یا علامتی مرکز کے بجائے قابض اسرائیلی سکیورٹی نظام کے عملی قلب میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
واضح اور کھلے پیغامات
قابض اسرائیلی وزیرِ دفاع یسرائیل کاٹز نے اس معاہدے کو ان قوتوں کے لیے عملی جواب قرار دیا جو القدس کی تقسیم یا یک طرفہ رعایتوں کی بات کرتے ہیں جو کسی بھی ایسے سیاسی راستے کی صریح مخالفت ہے جو شہر کی حیثیت میں تبدیلی کا سبب بن سکتا ہو۔
دوسری جانب قابض اسرائیلی بلدیہ القدس کے سربراہ موشے لیئون نے کہا کہ یہ معاہدہ قابض اسرائیل کی قومی سکیورٹی ترجیحات میں القدس کی حیثیت کو مزید مضبوط کرتا ہے جبکہ وزارتِ سکیورٹی کے ڈائریکٹر جنرل امیر برعام نے وضاحت کی کہ یہ قدم ایک طویل المدتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد القدس میں وزارتِ سکیورٹی اور قابض فوج کی موجودگی کو وسعت دینا ہے۔
عبرانی میڈیا کا جشن
عبرانی صحافت نے اس معاہدے کو ایک تاریخی موڑ کے طور پر پیش کیا۔ ویب سائٹ سروجیم نے اسے فوج اور القدس کے تعلق میں بنیادی تبدیلی قرار دیا جبکہ چینل سیون نے اپنی رپورٹ کو دارالحکومت میں سکیورٹی انقلاب کا عنوان دیا۔ عبرانی چینل i24 نے اسے وزارتِ سکیورٹی اور بلدیہ القدس کے درمیان اسٹریٹجک معاہدہ قرار دیا جبکہ ویب سائٹ والا نے نشاندہی کی کہ یہ پہلی بار ہے کہ القدس کے اندر اسلحہ سازی اور ترقی کا مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔
القدس کو قابض ریاست کا سکیورٹی قلب بنانے کی کوشش
معاہدے کے مضمرات کا جائزہ لیتے ہوئے القدس کے امور کے ماہر محقق فخری ابو دیاب نے زور دے کر کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے وسیع تر سیاسی تناظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق قابض اسرائیل اس معاہدے کے ذریعے اپنے سکیورٹی اور ادارہ جاتی وزن کو مقبوضہ القدس منتقل کرنا چاہتا ہے تاکہ شہر کو محض ایک اعلان شدہ سیاسی دارالحکومت کے بجائے ایک مکمل اسٹریٹجک سکیورٹی مرکز میں بدلا جا سکے۔
انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ شہر کے اندر عسکری اداروں کا بھرپور ارتکاز ایسی حقیقتیں مسلط کرنے کے لیے ہے جن سے پیچھے ہٹنا مشکل ہو جائے اور القدس کی حیثیت کے بارے میں مستقبل کی کسی بھی مذاکراتی گنجائش کو بند کر دیا جائے کیونکہ شہر کو براہِ راست قابض اسرائیلی قومی سکیورٹی سے جوڑ دیا گیا ہے۔
فخری ابو دیاب نے خبردار کیا کہ اس اقدام کے نتیجے میں القدس میں فلسطینیوں پر سکیورٹی سختی اور نگرانی میں مزید اضافہ ہوگا اور سکیورٹی کے نام پر جبر اور پابندیوں کی پالیسیوں کو جواز فراہم کیا جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ سیاسی پیغام بالکل عیاں ہے: القدس قابض اسرائیل کے نزدیک کسی بحث یا مذاکرات کا موضوع نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک اڈہ ہے جسے فوجی اور ادارہ جاتی انداز میں مضبوط بنا کر کسی بھی مستقبل کی ممکنہ تسویہ سے باہر رکھا جا رہا ہے۔
